بی جے پی کو 2024میں شکست دینے کے لئے علاقائی نہیں بلکہ قومی نظریہ درکار،بھارت جوڑو یاترا مقصد حاصل کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے،ناقص تعلیمی پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت، پاک- چین کو ایک ہونے سے روکنے کی پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت: راہل گاندھی
نئی دہلی،سماج نیوز: کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے سال 2022کے آخری دن صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے حزب اختلاف کے تما م رہنماؤں کو بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’’سب کیلئے دروازے کھلے ہیں‘‘۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو توقع سے زیادہ کامیاب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس یاتراکے ذریعے وہ ملک کوجوڑنے اور نفرت و تشدد کے ماحول کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں لگتا ہے اس مقصد پر وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے ہفتہ کو کہا کہ اپوزیشن کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے خلاف لڑنے کے لئے متحد ہونا چاہئے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن متحد ہو کر آپسی تال میل کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے تو 2024 میں بی جے پی کو مشکل پیش آئے گی۔ راہل گاندھی نے کہا کہ اپوزیشن کو بی جے پی کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہئے اور حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔راہل گاندھی نے کہا کہ بہت سی ہم خیال جماعتیں چاہتی ہیں کہ ہندوستان میں ہم آہنگی قائم ہو۔ ہفتہ کو یہاں کانگریس ہیڈکوارٹر میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران منعقد 9ویں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے کہا کہ اس یاترا سے انہوں نے بہت کچھ نیا سیکھا ہے ۔ یاترا کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ان پر جو تنقید کی ہے اس نے بھی انہیں سبق سکھایا ہے اور اس سے ان کی بنیادی سوچ کو تقویت ملی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس یاترا کے ذریعے وہ ہم وطنوں کو زندگی کا ایک نیا طریقہ دینا چاہتے ہیں، لیکن یہ طریقہ لوگوں تک نہ پہنچے اس لئے بی جے پی اور آر ایس ایس انہیں بدنام کرنے کی پوری کوشش کر رہےہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچائی کے راستے پر چل رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی پروپیگنڈہ سچائی کو چھپا نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک انہیں بدنام کرنے کی مہم پر تقریباً 5000کروڑ خرچ ہو چکے ہوں گے ، لیکن اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے اور اگر اس کام پرمزید خرچ کریں گے تب بھی کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔
راہل گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صوبائی رہنماؤں کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن چاہے اکھیلیش جی ہوں یا مایاوتی جی سب نفرت کے خلاف ہیں اور وہ سب ہندوستان میں پیار اور محبت چاہتے ہیں۔اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس کے پاس ایک قومی نظریہ ہے جب کہ صوبائی پارٹیوں کے پاس قومی نظریہ نہیں ہے۔ اس تعلق سے انہوں نے سماجوادی پارٹی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سماجوادی پارٹی کا نظریہ کیرالا یا بہار میں نہیں ہے ہاں ان کا اتر پردیش کیلئے نظریہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگرس حزب اختلاف کے نظریہ کا احترام کرتی ہے۔ راہل گاندھی نے کہا وزیر اعظم کی پارٹی کا نظریہ علیحدہ ہے اور یہ ایک نظریاتی لڑائی ہے، سیاسی نہیں اور یہ بہت پرانی لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مہاتما گاندھی انگریزوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو پوری دنیا ان کو سن رہی تھی کیونکہ وہ ایک نظریاتی لڑائی تھی۔ بی جے پی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ عوام میں ناراضگی ہے اور بی جے پی کو ہرانے کیلئے قومی نظریہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان نظریاتی لڑائی ہے اسی لئے بی جے پی کانگریس مکت ہندوستان کا نعرہ دیتی ہے۔چین کے مسئلہ پر انہوں نے کہا کہ شہیدوں کے خاندان کا درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے یہاں کوئی شہید ہوا ہو۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ کیونکہ ان کے گھر میں ان کے والد شہید ہوئے ہیں اور ان کی دادی شہید ہوئی ہیں اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ چین کی سرحد پر کوئی بھی جوان شہید ہو اور ان کے خاندان کو یہ درد سہنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو عوام کو بتانا چاہئے کہ چین نے دراندازی کی ہے اس کو چھپانا نہیں چاہئے۔ اس کا غلط پیغام جاتا ہے کہ کسی نے دراندازی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو حکمت عملی تیار کرنی چاہئے، احتیاط برتنی چاہئے اور عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سارے معاملہ کو غلط طریقہ سے ہینڈل کیا ہے۔ اس موقع پر راہل گاندھی نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی غلط سمت میں جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران ہزاروں طلبا سے ملاقات ہوئی اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں تو ان کے پاس صرف پانچ متبادل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف ایک لڑکی نے اپنا کاروبار شروع کرنے کی بات کہی اور ایک لڑکے نے میکینک کا کام شروع کرنے کی بات کہی، باقی سب یا تو انجینئر، ڈاکٹر، جج، آئی اے ایس اور وکیل بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں طلبا کو متبادل پیش کرنے ہوں گے اور تعلیم نظام کو از سر نو دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس میں وقت ضرور لگے گا لیکن ہمیں یہ تبدیلی کرنی ہوگی۔ انہوں نے سیکورٹی معاملے کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کے پیدل یاترا بلٹ پروف گاڑی میں کی جائے۔ جب بی جے پی کے رہنما بلٹ پروف گاڑی سے باہر آکر لوگوں سے ملتے ہیں تب تو کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ پیدل لوگوں کے بیچ میں چلنے کو ہی پسند کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ابتداء میں یہ صرف یاترا تھی لیکن اس یاترا نے انہیں بہت کچھ سکھایا ہے اور کئی طرح کے جذبات سے روشناس کرایا ہے۔ بی جے پی کی تنقید نے بھی ان کے ارادے مستحکم کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس یاترا نے انہیں ایک پیغام دیا ہے اور اگر ہم اس پیغام کو سنے بغیر مستقبل کا فیصلہ کرنے لگیں گے تو یہ اس پیغام کی توہین ہوگی۔ ویسے تو انہوں نے ایک ٹی شرٹ میں یاترا کرنے اور سردی نہ لگنے کے سوال کا جواب اپنے انداز میں دیا، انہوں آخر میں طنزیہ انداز میں پوچھا کہ ان کو ٹیلی پرامپٹر اور سیٹ بدلنے کی سہولت کیوں نہیں دی جاتی، جیسے اڈانی کو دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اڈانی کو تو سیٹ بدلنے کی سہو لت دی گئی جو وزیر اعظم کو بھی نہیں دی گئی۔