نئی دہلی، سماج نیوز:میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی مشکلیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں، وہ پچھلے کئی برسوںسے بدعنوانی کے الزام میں جیل میں بند ہیں ۔ آج عدالت نے ان کو ایک دیگر معاملے میں مزید 7سال کی سزا سنادی ہے ۔اس طرح آنگ سان سوچی کی جیل کی سزا میں ایک اور سزا کا اضافہ ہو گیا ہے۔میانمار کی برطرف جمہوریت پسند رہنما آنگ سانگ سوچی کے خلاف درج مقدمات کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد انہیں مزید 7سال قید کیساتھ انہیں مجموعی طور پر 33برس قید کا سامنا کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس میانمار میں فوجی قبضے کے بعد سے 77سالہ آنگ سانگ سوچی کے خلاف درج بدعنوانی، غیرقانونی طور پر واکی ٹاکیز رکھنے اور کورونا وائرس پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے جیسے تمام مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں جس کے بعد ان کی مجموعی قید 33سال ہوگئی ہے ۔رپورٹ کے آنگ سانگ سوچی کو ایک حکومتی وزیر کے لیے ہیلی کاپٹر کی خدمات لینے ، اسے چلانے اور خریدنے سے متعلق بدعنوانی کے پانچ مقدمات میں 7برس کی سزا سنائی گئی ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ریاست کو نقصان پہنچایا۔
ایک قانونی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آنگ سانگ سوچی اچھی صحت کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں۔ ذرائع نے کہا کہ رہنما کے خلاف درج تمام مقدمات مکمل ہوگئے ہیں اور اب ان کے خلاف مزید کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔قابل ذکر ہے کہ سوچی کی حکومت کا فوج نے تختہ پلٹ کردیا تھا اور سنگین الزامات کے تحت پے درپے مقدمات کے تحت سوچی کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا ۔سال 2015میں فوجی حکمرانی کے 49سال پورے ہونے کے بعد وہ برسر اقتدار آئیں تھیں لیکن جلد ہی انہیں اقتدار گنوانا پڑا تھا ۔اس کے بعد سے مسلسل ان پر لگنے والے الزامات میں بدعنوانی کا الزام ان کی سزائوں میں اصل اضافے کا سبب بنا رہا ۔فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ان پر سرکاری خزانے میں خرد برد کا الزام لگایا گیا، ماضی میں ان پر 13 مختلف مقدمات بنائے گئے اور کئی میں سزا بھی ہوئی تاہم سوچی بڑی بے شر می سے تمام مقدامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتی ہیں۔غور طلب ہے کہ انکے خلاف مقدمات میں کووڈ 19 کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مہم چلانے ، غیر قانونی طور پر ریڈیوسے متعلق آلات رکھ کر اشتعال پھیلانے، ملکی رازوں کو سامنے لانے اور ملکی انتخابات میں اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے انتخابی جیت ممکن بنانے کے الزامات سر فہرست ہیں۔ آن سان سوچی خواہ کتنا ہی اپنے اوپر لگے الزامات کو خارج کریں ،لیکن اصل بات تو ان کو جھوٹا ثابت کرنا ہے جس میں وہ ناکام ہیں! ۔بھلاعدالت سے بغیر کسی گناہ اور جرم کے ثابت کئے کسی کو کیسے سزا مل سکتی ہے، یہ سوچنے والی بات ہے !شاید سوچی دنیا کو بے وقوف سمجھتی ہیں !۔در اصل آنگ سان سوچی جب میانمار کی لیڈر کی حیثیت سے اقتدار میں آئیں تو ان کی حکومت میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی انتہا نہ رہی۔عوام پر جو قہر برپایا گیا اس کے ثبوت اور گواہ اب بھی زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک منظم نسل کشی تھی ۔دورائے نہیں کہ میانمار میں اقتدار کی جنگ میں عوام کا جو حشر ہوا ہے اس میں حکمرانوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔لیکن آن سان سوچی کے روہنگیا مسلمانوں(جنہیں وہ اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے ہی انکار کرتی رہی ہیں )پر مظالم رونگٹے کھڑے کرنے والے تھے ۔جس کی وجہ سے ان کی پوری دنیا میں نہ صرف زبردست رسوائی ہوئی ،بلکہ ملک میں مقدمہ کا سامنا الگ کرنا پڑا ۔آج وہ جیل میں ہیں،سوچی نے میانمار کو دنیا کی نظروں میں جو بدنامی دلائی اس کا داغ جلد مٹنے والا نہیں ۔میانمار کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہو گی کہ گزشتہ سال اس کو آسیان ممالک کی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا ۔لیکن اس ملک کو شاید ہی عقل آئے ،اس کے بعد اسے دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے بھی رسوائی ہاتھ لگی ،یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی تک ٹھہرا دیا ۔لیکن سوچی کی ضد اور ڈھٹائی کہ انہوںنے اپنے کرتوت کو کسی عدالت میں تسلیم نہیں کیا ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سابق میانمار حکمراں سوچی کے مظالم سے پریشان ہوکر آج دس لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان ملک بدری کی زندگی گزارنے کو مجبور ہیں ،جہاں ان کے ساتھ ناگفتہ بہ حالات ان کے بارے میں سوچنے کو مجبور کردیتے ہیں۔وہ مہاجر آج جن برے حالات سے دوچار ہیں اسے سن کر کسی کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔تنہا بنگلہ دیش میں ہی ان کی تعداد چھ لاکھ کے قریب خیموں میں زندگی بسر رہی ہے ،جہاں ان کی عورتوں کی ناتو عصمتیں محفوظ ہیں ناہی بنیادی سہولیات میسر ہیں ۔ان سب عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ سوچی سزائوں کے پہاڑ سے آسانی سے بچ کر نکل آئیںگی؟۔ میانمار کی فوجی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے وعدے کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے جلد انتخابات کرائے اور عوام پر کئے گئے مظالم کے داغوں کو جمہوری اور انسانی بنیادوں پر مٹانے کی کوشش کرے ۔