سہارنپور، سماج نیوز:(احمد رضا) اللہ تعالیٰ کا پا ک کلام ہر صورت سے اور نظریہ سے کل عالم انسانیت کیلئے لائق تعظیم اور قابل اعتماد ہے۔ کلام اللہ کی ایک آیت مبارک شریف پوری دنیا کے تمام علوم پر بھاری ہے، کوئی بھی طاقتور سے طاقتور شئے کلام اللہ شریف کے مد مقابل آ ہی نہیں سکتی۔ دینا کی مکمل تاریخ سبھی کے سامنے ہے، یہ وہ پاک اور باوقار کلام اللہ ہے کہ جس کا نقطہِ بھی اثر رکھتا ہے، شرط یہ ہے کہ مکمل اعتقاد کے ساتھ پڑھا جائے اور سمجھ سمجھ کر پڑھا جائے۔ حفظ قرآن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے عالم دین مفتی محمد صادق مظاہری نے اللہ کے پاک کلام کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ کلام اللہ شریف کا حفظ کر نا وہ نورانی سعادت ہے جس کے مد مقابل تمام لطف و کرم اور سعادتیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔ حافظ قرآن پر رب کریم کے تعلق کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اُس کا اپنے مولیٰ کے ساتھ خصوصی ربط قائم ہوجاتا ہے۔ اﷲ عز و جل کی مدد و نصرت حافظ قرآن کے شامل حال کردی جاتی ہے۔ اﷲ جل شانہ کے جود و کرم، انوار و تجلیات اور ایک خاص روحانی برق کا نزول حافظ قرآن پر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک جاتا ، پھٹ کر پاش پاش ہو جاتا ، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘۔ (سورہ الحشر:21)
جلالت قرآن یہ ہے کہ اس کی عظمت وشوکت پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم مسلمانوں اور بالخصوص حفاظ پر یہ لطف تو محض نبی اکرم ﷺکے صدقے میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم سے وابستگی، اللہ اور رسول سے محبت کی علامت ہے۔ مفتی محمد صادق مظاہری نے حفظ قرآن کی عظمت پر اپنے طور سے روشنی ڈالنے ہوئے کہا کہ قرآن پاک مسلمانوں کیلئے اﷲ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نعمتِ خاص ہے، اس کی جس قدربھی قدر دانی کی جائے کم ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ: ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ (بخاری)۔ قرآن پاک کو سیکھنے اور سکھانے والا دو کمالات کا حامل ہوتا ہے، ایک تو وہ خود قرآن کریم سے نفع حاصل کرتا ہے پھر دوسروں کو اخلاص کیساتھ نفع تقسیم کرتا ہے۔ اسی بناء پر اسے بہتر و اعلیٰ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہ نے سرور کونینﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن شریف پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جااور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں پڑھا کرتا تھا بس۔ تیرا آخری درجہ و مرتبہ وہی ہوگا جہاں آخری آیت پر تو پہنچے‘‘۔(ترمذی)