شیخ عزیر شمس (1957- 2022ء) کی ناگہانی وفات سے شیخ کے متعارفین اور محبین کو جو دلی صدمہ پہنچا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہر شخص دم بخود ہے، سب کے سامنے ایک مہیب سناٹا ہے، علم وتحقیق کی بساط الٹ دی گئی ہے، ابن تیمیہ اور ابن قیم کے علوم ومعارف کا پاسبان اچانک عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرجاتا ہے، طالبان علوم نبوت کا مرشد ومربی بیٹھا ان کے سامنے علم وآگہی کے موتی لٹا رہا تھا ادھر ملک الموت پوری تیاری کے ساتھ گویا مجلس کے اختتام کا منتظر بیٹھا تھا۔ ادھر مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بلندہوتی ہے ادھر لمحوں میں موت کا فرشتہ حکم الٰہی کی تنفیذ کرچکا ہوتا ہے۔ موت وحیات کے بیچ کل یہی فاصلہ ہے۔ منٹوں میں اس حادثہ فاجعہ کی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ دستر خوان پر بیٹھے شخص کے ہاتھ سے نوالہ چھوٹ کر گرجاتا ہے، راہ چلتا انسان صدمے سے وہیں بیٹھ جاتا ہے، دل ودماغ ماؤف، جسم متزلزل، زبان گنگ، کون کس کو تسلی دے۔ کیا عرب کیا عجم، سب حیرت واستعجاب اور قلق واضطراب کی تصویر بن گئے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی:
لعمرک ما الرزیۃ فقد مال
ولا شاۃ تموت ولا بعیر
ولکن الرزیۃ فقد حر
یموت لموتہ خلق کثیر
مدینہ یونیورسٹی کی چار سالہ زندگی (1987-1990ء) میں جب کبھی عمرہ وغیرہ کے لیے مکہ جانا ہوتا تو آپ کو دیکھتے اور سنتے تھے۔ آپ اس وقت جامعہ ام القری کے مرحلہ دکتوراہ کے طالب علم تھے، مدینہ کے بعد جب میں مکہ منتقل ہوا اور تین سال اس مقدس سرزمین پر بہ سلسلۂ تعلیم قیام کا موقع ملا تو آپ سے قربت اور انسیت بڑھ گئی، عزیزیہ میں واقع آپ کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ تقریباً روزانہ شام میں حرم میں باب بلال کے اندر مسقف جگہ پر ہندوستانی طلبہ وعلماء سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، موقع رہتا تو کچھ دیر بیٹھ کر مختلف علمی ودعوتی موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا، شیخ عزیر سے وہاں بھی اخذو استفادہ ہوتا ہے، ان دنوں مکہ مکرمہ میں دکتور وصی اللہ عباس، دکتور جاوید اعظم بنارسی، دکتور عبد الوہاب خلیل الرحمن، دکتور اختر جمال لقمان، دکتور عبد العلیم بستوی، شیخ ابو الاشبال شاغف بہاری جیسی شخصیتیں موجود تھیں۔ مذکورہ مقام پر ان علماء وفضلاء سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، پڑوسی ملک سے تعلق رکھنے والے اہل حدیث طلبہ وعلماء بھی آس پاس بیٹھتے تھے۔ جمعہ کی نماز میں بھی اکثر لوگ پہنچ جاتے تھے۔ ان دنوں حرم میں وہ ازدحام نہ ہوتا تھا جو آج کل دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم لوگ مغرب کی اذان کے 5-7؍ منٹ پہلے پہنچتے تو اتنی دیر میں سات چکر طواف کرلیتے اور اذان واقامت کے درمیان دو رکعت بھی ادا کرلیتے۔ جمعہ یا غیر جمعہ کبھی اندر جانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ اگر کبھی معمولی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے یا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے کہیں اور نماز ادا کرتے تو نماز کے بعد باب بلال پر پہنچ جاتے۔
شیخ عزیر ان ایام میں خالص ہندوستانی بھیس میں رہتے تھے۔ کرتا پائجامہ، کھلا سر، لمبے بال، بڑی بڑی مونچھیں، مجھے یاد نہیں آتا کہ اس زمانے میں آپ کو کبھی عربی جبے میں دیکھا ہو یا آپ کے سر پر ٹوپی رہی ہو۔ ایک طویل عرصہ کے بعد 2010ء میں مدینہ یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے اس مقدس سرزمین کی زیارت کا موقع ملا تو اس وقت دیکھا کہ شیخ کے لباس وپوشاک اور وضع قطع میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ اب عربی جبہ کے ساتھ گول ٹوپی بھی استعمال ہونے لگی ہے۔ بال اور مونچھ کا معاملہ بھی پہلے جیسا نہیں ہے۔
2010ء سے 2019ء کے بیچ متعدد بار حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد اولین فرصت میں آپ کو فون کرتا۔ آپ ملاقات کے لیے حرم یا ہوٹل میں تشریف لاتے، عموماً عشاء کی نماز میں یا مغرب کی نماز میں آتے۔ ملاقات کے لیے آتے تو اپنی کوئی تحقیق یا تصنیف ہدیہ کے لیے لاتے، چنانچہ ایک مرتبہ ابن قیم کی ’’روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین‘‘ (750 ؍صفحات) ایک بار ابن قیم ہی کی ’’الکلام علی مسألۃ السماع‘‘ (380؍ صفحات) مرحمت فرمائی۔ دونوں کتابیں دار عالم الفوائد سے شائع ہوئی ہیں۔ ایک بار مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے مقالات کا مجموعہ (آثار حنیف بھوجیانی) جو چار جلدوں میں المکتبۃ السلفیۃ لاہور سے شائع ہوا تھا ساتھ میں لے کر حرم تشریف لائے اور بتایا کہ یہ جامعہ سلفیہ کی لائبریری کے لیے لے جانا ہے۔ایک دو مرتبہ اِدھر سے جاتے وقت آپ کی کچھ کتابیں میں دہلی سے لے جاچکا ہوں۔
2014ء میں رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے مکہ مکرمہ میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا تو اس موقع پر محترم فیصل صاحب (بھدوہی) جو اس وقت جامعہ ام القری میں زیر تعلیم تھے اور عزیزیہ میں فیملی کے ساتھ رہتے تھے، آپ نے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ حرم میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد فیصل بھائی کے ساتھ ان کے گھر پہنچے، شیخ عزیر بھی تشریف لائے، تناول ما حضر کے بعد آپ کے ساتھ تقریباً بارہ بجے شب تک مختلف تعلیمی وعلمی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس موقع پر آپ نے کچھ موضوعات بھی بتائے جن پر ہندوستان میں کام کرنے کی ضرورت تھی۔ جامعہ سلفیہ کے کتب خانے سے آپ کو کچھ قدیم کتابوں کی تصویر درکار تھی، ان کی فہرست دی۔ اس وقت ملٹی میڈیا موبائل کا استعمال آج کی طرح عام نہیں تھا اور ارسال وترسیل کی وہ سہولتیں میسر نہیں تھیں جو آج ہیں ۔ میرے پاس گو کہ وہ موبائل تھا لیکن ابھی تک واٹس ایپ کا استعمال نہیں شروع کیا تھا۔ بنارس پہنچنے کے بعد یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ شیخ تک کتابوں کی تصویر ارسال کرنے کی کیا شکل ہو۔ بالآخر یہ طے پایا کہ واٹس ایپ کے ذریعہ بھیجنا آسان ہے۔ ایک طالب علم نے میرے موبائل میں واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کیا اور اسی نے میرے موبائل سے کتابوں کی تصویر لے لے کر اس مشکل کو حل کیا۔ لیکن ان تصاویر کو بھیجنے کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ شیخ ملٹی میڈیا موبائل یا واٹس ایپ استعمال نہیں کرتے، چنانچہ میں نے فیصل بھائی کے نمبر پر یہ تصاویر ارسال کردیں اور ان سے شیخ تک پہنچانے کی درخواست کی۔ بعض کتابوں کے کچھ صفحات ناقص تھے، شیخ نے ایمیل پر اطلاع دی، میں نے وہ صفحات دوبارہ بھجوادیے۔ اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ آپ نے اس طرح کی خدمت کا موقع دیا۔ اس نوعیت کے آپ کے کئی ایمیل موجود ہیں۔
شیخ اپنی تحقیق پر مشتمل جو کتابیں ہدیہ کرتے ان کتابوں سے آپ کے مقدمات نکال کر انھیں مضمون کی شکل میں صوت الامہ میں شائع کردیتا تھا، اس کے لیے میں نے آپ سے پیشگی اجازت لے لی تھی۔
جنوری فروری 2016ء میں راقم کو مدینہ یونیورسٹی میں منعقد ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا، کانفرنس سے فراغت کے بعد عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچا، محترم شیخ ثناء اللہ صادق تیمی حفظہ اللہ کے اصرار پر عزیزیہ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر دو تین دن قیام رہا۔ اس وقت شیخ ثناء اللہ کی فیملی نہیں تھی، شیخ عزیر صاحب کا مکان بھی قریب تھا، نمازوں میں ملاقات ہوتی، ایک دو بار شیخ ثناء اللہ کے یہاں بھی تشریف لائے۔ ایک روز ام القری کے ہندوستانی طلبہ کا اجتماع بھی منعقد ہوا جس میں شیخ نے بھی خطاب فرمایا۔
ایک مرتبہ دار المصنفین اعظم گڈھ میں علامہ شبلی نعمانی پر منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لیے آپ تشریف لائے تھے، واپسی میں جامعہ سلفیہ بھی آئے، اسی روز شام میں آپ دہلی جانا چاہتے تھے۔ مجھ سے کہا کہ کسی لڑکے کو میرے ساتھ اسٹیشن بھیج دیجیے، مجھے ٹکٹ بنوانا ہے، میں خود آپ کے ہمرار اسٹیشن گیا۔ اسی موقع پر آپ نے بتایا کہ غیر مقیم ہندوستانیوں کے لیے ٹرینوں میں ایک کوٹہ ہوتا ہے اورا ن کے لیے کچھ سیٹیں محفوظ رکھی جاتی ہیں، اس کے قواعد وشرائط بھی بتلائے، مجھ سے کہا کہ آپ بھی اکثر باہر جاتے رہتے ہیں، اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسٹیشن پر اس کے لیے ایک خاص آفس تھا، جس میں پہلی بار آپ کے ساتھ میں داخل ہوا تھا، اس موقع پر پہلی بار آپ کو شیروانی زیب تن کیے دیکھا تو خوش گوار حیرت ہوئی۔ اس کے بعد جامعہ کے پروگرام میں بھی ایک مرتبہ آپ شیروانی میں دیکھے گئے۔
previous post
next post