11.1 C
Delhi
جنوری 20, 2025
Samaj News

بقیع قبرستان سے گنبد ومزارات کا ازالہ، صحابۂ کرام کی توہین یا فرمان نبوی کی تعمیل

ڈاکٹر محمد یوسف حافظ ابو طلحہ

بقیع، مدینہ منورہ کا ایک مشہور تاریخی قبرستان ہے جس کا ذکر احادیث وآثار میں ’’البقیع‘‘ یا ’’بقیع الغرقد‘‘ کے نام سے آتا ہے۔ اس قبرستان میںصحابہء کرام، تابعین عظام اور اتباع تابعین کی بہت بڑی تعداد مدفون ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتا اس قبرستان کی زیارت کرتے تھے اور اس میں مدفون لوگوں کیلئے رحمت ومغفرت کی دعا کیا کرتے تھے۔ لہٰذا زائرین مدینہ کیلئے مستحب ہے کہ وہ مدینہ پہنچنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے شرعی مقصد کے دائرے میں اس قبرستان کی زیارت کرے۔ اور اسلامی شریعت میں قبروں کی زیارت کا صرف دو ہی مقصد ہے کہ زیارت کرنے والا عبرت حاصل کرے اور اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کرے۔ اس کے علاوہ کوئی تیسرا مقصد قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے۔
اس عظیم تاریخی قبرستان کی ایک عظیم تاریخ یہ ہے کہ جب شاہ عبد العزیز کا دائرہء حکومت حجاز تک پہنچا تو انہوں نے بقیع قبرستان کی قبروں پر بنائے گئے گنبد ومزارات کو منہدم کر دیا۔ ان کی اس انہدامی کارروائی پر اس زمانے میں بھی کچھ خاص فرقوں نے شور وہنگامہ کیا اور آج بھی اس کے خلاف وہی مخصوص فرقے مختلف انداز میں احتجاج کر رہے ہیں۔ یہاں ٹھنڈے دل سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا شاہ عبد العزیز نے ان قبروں کو اسی حالت پر لوٹا دیا جس پر وہ قبریں عہد نبوت میں تھیں یا ان قبروں کی حالت تبدیل کردی؟ اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ قبروں کے سلسلے میں شرعی تعلیمات کیا ہیں؟
سب سے پہلے آئیے اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک معتبر کتب حدیث میں اس مسئلے کو دیکھتے ہیں۔
صحیح مسلم (696) کی روایت ہے کہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابو الہیاج اسدی سے کہا: (أَلَا أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَہُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَہُ.) کیا میں تمھیں اس (مہم) پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے روانہ کیا تھا؟ (وہ یہ ہے) کہ ’’تم کسی مجسمے کو نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا اور کسی بلند قبر کو نہ چھوڑنا مگر اسے (زمین کے) برابر کر دینا۔‘‘
نیز صحیح مسلم (970) میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں: (نَہَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ یُقْعَدَ عَلَیْہِ، وَأَنْ یُبْنَی عَلَیْہِ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونا لگانے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا۔
اسی طرح صحیح ابن حبان (6635) میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: (أن النبیَّ ﷺ ألحد ونصب علیہ اللبن نصبًا، ورفع قبرہ من الأرض نحوا من شبر) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لحد قبر میں ڈالا گیا اور اس قبر پر کچی اینٹیں لگائی گئیں اور ان کی قبر زمین سے لگ بھگ ایک بالشت بلند رکھی گئی۔اس کے علاوہ بہت سارے احادیث وآثار اہل سنت کے نزدیک معتبر کتب سنت میں موجود ہیں۔
ان روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قبر تقریبا ایک بالشت اونچی ہونی چاہیے کہ دیکھنے والا یہ جان سکے کہ یہ قبر ہے تاکہ قبر کا جو شرعی احترام ہے اس کی پاسداری ہو سکے۔ جیسے نا اس پر کوئی بیٹھے نا اسے قدموں سے کوئی روندے۔ بلکہ اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرے اور اس کیلئے دعائے مغفرت کرے۔ قبر کو ایک بالشت سے زیادہ اونچی کرنا یا اس پر عمارت بنانا یا اسے چونا گچ کرنا ممنوع ہے۔
اب آئیے ذرا شیعہ امامیہ کے نزدیک معتبر کتب حدیث میں اس مسئلہ کو دیکھتے ہیں۔ شیعہ کی سب سے معتبر کتاب ‘کُلینی’ کی الکافی (529؍6) میں جعفر الصادق کی روایت ہے: کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: (بعثنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ إلی المدینۃ فقال: لا تدع صورۃ إلا محوتہا، ولا قبرا إلّا سویتہ) کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے مدینے کی جانب یہ ہدایت دے کر بھیجا کہ کسی بھی تصویر کو مٹا کر چھوڑنا اور کسی بھی قبر کو (زمین کے) برابر کرکے چھوڑنا۔
نیز طوسی کے الاستبصار (482؍1) اور تہذیب الاحکام (462؍4) میں جعفر الصادق کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں: (نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ أن یصلی علی قبر، أو یقعد علیہ، أو یبنی علیہ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے قبروں پر نماز پڑھنے، ان پر بیٹھنے، اور ان پر تعمیر کرنے سے روکا ہے۔
اس طرح تہذیب الاحکام (469؍4) میں جعفر الصادق اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: (إن قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ رفع شبرا من الأرض) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی قبر (سطح زمین سے) ایک بالشت بلند بنائی گئی۔
اس طرح ‘الحر العاملی’ کی کتاب وسائل الشیعۃ (193؍3) میں ابو عبداللہ جعفر الصادق سے مروی ہے کہ انہوں فرمایا: (إنّ أبی قال لی ذات یوم فی مرضہ: إذا أنا متّ فغسلنی وکفنی، وارفع قبری أربع أصابع) کہ میرے والد نے ایک دن حالت مرض میں مجھے وصیت کیا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے غسل دینا اور مجھے کفن کرنا اور میری قبر کو چار انگلی کے برابر بلند کرنا۔
ان شیعی روایات سے بھی وہی نتیجہ نکلتا ہے جو سنی روایات سے نکلتا ہے۔ تو پھر شیعہ امامیہ کو ان شیعی روایات سے اختلاف کیوں؟ گویا بلا اختلاف قبروں پر کسی بھی طرح کی عمارت بنانا جائز نہیں ہے۔ نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، نہ صحابۂ کرام، نہ تابعین عظام، اور نہ ہی اتباع تابعین کے دور میں قبروں پر کوئی عمارت بنائی گئی تھی۔ البتہ اسلام کی ان بہترین تین نسلوں کے بعد بنی بویہ کے دور اقتدار میں قبروں پر گنبد ومزار بنانے کا سلسلہ شروع ہوا، اور انہی کے دور اقتدار میں بقیع یا دیگر معروف قبروں پر گنبد ومزارات بنائے گئے۔ لیکن جب شاہ عبد العزیز نے حجاز کو اپنے دائرہء حکومت میں داخل کیا تو انہوں نے مختلف مسالک کے علماء سے فتوی طلب کرنے کے بعد 8 شوال 1344ہجری کو بقیع قبرستان سے گنبد ومزارات کو منہدم کرا دیا۔ اس طرح بقیع اسی حالت میں لوٹ آیا جس حالت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہء کرام، تابعین اور اتباع تابعین کے زمانے میں تھا۔ تو پھر اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے اس انہدامی عمل سے بے چین کیوں ہیں؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قبروں کی سادگی پر زور دیا اور کسی قسم کی تعمیرات سے منع فرمایا، تو انہدامی کارروائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل ہے، اور جو کام رسول اللہ کے حکم کی تعمیل ہو اس میں صحابہ کرام کی توہین ہرگز نہیں ہو سکتی ۔حاشا للہ
غور کرنے کی بات یہ بھی ہے شاہ عبد العزیز نے جب انہدامی کارروائی کا حکم دیا اور مکہ کے اُس وقت کے چیف جسٹس، عبداللہ بن سلیمان ابن بلیہد کو اس کی ذمہ داری سونپی، تو شیخ ابن بلیہد نے اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، محض اپنی رائے پر بھروسہ کرنے کی بجائے مدینہ کے مختلف مسالک کے علمائے کرام سے فتویٰ طلب کیا۔ 2 رمضان 1344ہجری میں، مختلف مسالک کے علما نے متفقہ طور پر فتویٰ جاری کیا کہ قبروں پر گنبد و مزار بنانا حرام ہے، اور اگر بنا دیے گئے ہیں تو صحیح احادیث کی روشنی میں انہیں منہدم کر دیا جائے گا۔ لہٰذا اسے منہدم کر دیا جائے۔ پھر اس فتویٰ کے بعد، شاہ عبد العزیز نے اپنی حکومت کے نوخیزی کے باوجود گنبد و مزارات کو گرانے کا دلیرانہ فیصلہ کیا، جو کہ توحید اور سنت کی پیروی کی راہ میں مخالفت کی آندھیوں کی پرواہ کیے بغیر عمل میں آیا۔ یہ اقدام شریعت کے احکامات کے بالکل مطابق تھا، جیسا کہ مصر کے علامہ محمد حامد الفقی نے اپنے مقالہ ’’أفحکم الجاھلیۃ یبغون‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے، جو اُس وقت مجلۃ المنار میں شائع ہوا تھا۔
لیکن جب توحید کی بجائے قبر پرستی دلوں میں سرایت کر جاتی ہے، اتباع سنت کی بجائے ہوائے نفس کا غلبہ ہوتا ہے تو سارے شرعی نصوص پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور ہنگامہ آرائی اور احتجاجات کا سہارا لے کر حق کو باطل اور باطل کو حق بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے اور کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Related posts

مطیع الرحمٰن عزیز ’نیشنل اقلیتی ونگ‘ کے صدر منتخب

www.samajnews.in

ہماری پارٹی جمہوریت کی بنیاد پر بھارتی قانون کے مطابق کام کریگی: نوہیرا شیخ

www.samajnews.in

سعودی عرب امن کا ثالث تھا اور اب بھی ہے: شاہ سلمان

www.samajnews.in