پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
ماہ رمضان میں مختلف عبادات مشروع ہیں ان میں سے ایک عبادت نماز تراویح بھی ہے اور یہ رمضان کا قیام اللیل بھی ہے چونکہ عموما لوگ اسے لمبی پڑھتے تھے تو جب چار رکعتیں پڑھ لیتے تو تھوڑا آرام کرتے۔ اس لئے اس کو تراویح بھی کہا جاتا ہے۔نماز تراویح کی فضیلت میں کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں چنانچہ صحابی رسول جناب ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘(متفق علیہ) جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَة رواہ ابوداؤد و الترمذی جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوکر لوٹ جائے تو اس کے لیے ایک رات کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے۔اس لئے ہم سبھی کو نماز تراویح کی ادائیگی کا حریص ہونا چاہیے اور یہ نماز مکمل امام کے ساتھ پڑھنا زیادہ مناسب اور افضل ہے تاکہ نماز پڑھنے والا شخص عظیم ثواب کا مستحق ہو سکے یعنی اس کے لیے پوری رات قیام کرنے کا ثواب لکھ دیا جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی طریقہ یہی رہا ہے کہ آپ رات میں رمضان ہو یا غیر رمضان 11 رکعتیں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا (متفق علیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور غیر رمضان میں بھی 11 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ چار رکعتیں نماز پڑھتے تو تم ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں سوال نہ کرو پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے تو تم ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو پھر آپ تین رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔البتہ رمضان میں بھی اور غیر رمضان میں بھی قیام اللیل میں 11 رکعت سے زائد پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے 13/ رکعتیں پڑھیں اور ایک بار جب ایک صحابی نے آپ سے صلاۃ اللیل کے بارے میں آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: صلاة الليل مثنى مثنى متفق عليه رات کی نماز دو دو رکعت ہے چنانچہ آپ نے مطلق دو دو رکعت کا تذکرہ کیا اور صلوۃ اللیل کے لیے کسی گنتی کا پابند نہیں بنایا کہ اس سے زائد کرنا جائز نہ ہو۔
قیام اللیل میں رکعتوں کی تعداد حالات کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے جو شخص لمبی تلاوت کرتا ہے تو وہ رکعت کی تعداد کم کر سکتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور جو شخص لوگوں کے لیے آسانی کی خاطر ہلکی نماز پڑھے تو وہ رکعتوں کی تعداد زیادہ کر سکتا ہے جیسے کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں صحابہ کرام نے کیا چنانچہ ثابت ہے کہ صحابہ نے 23 رکعتیں پڑھیں۔شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بات ثابت شدہ اور متحقق ہے کہ آپ نے جن صحابہ کو امامت کے لیے متعین کیا تھا انہیں 11 رکعت نماز پڑھانے کا حکم دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ ان لوگوں نے آپ کے حکم سے 23رکعتیں پڑھائی اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ وسیع ہے۔اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان پہلے بیس دنوں کی بہ نسبت آخری عشرے کی رکعتوں کی تعداد میں زیادتی کردے اس طرح ان کو دو حصوں میں تقسیم کردے ایک حصہ رات کے ابتدائی مرحلے میں پڑھے اور ہلکی ہلکی پڑھے یہ مان کر کہ یہ تراویح کی نماز ہے جیسے پہلی بیس راتوں میں وہ پڑھتا تھا اور دوسرا رات کے آخری حصے میں پڑھے اور ان کو لمبی کر کے پڑھے یہ مان کر کے کہ یہ تہجد ہے۔اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ امام تراویح کی نماز میں مصحف دیکھ کر قرأت کرے جب وہ قرآن کا حافظ نہ ہو لیکن مقتدی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ امام کے ساتھ پیچھے پیچھے تلاوت کرنے کے لیے مستحب اٹھائے کیونکہ اس سے بلا ضرورت نماز میں حرکت لازم آتی ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے نماز میں قیام کے دوران سینے پر دونوں ہاتھ رکھنے کی سنت فوت ہوجائے گی البتہ اس سے یہ چیز مستثنی ہے کہ مقتدیوں میں سے کوئی ایک مقتدی مصحف اٹھالے تاکہ بوقت ضرورت امام کو لقمہ دے سکے جب کہ امام اپنے حفظ سے قرات کر رہا ہو۔
اسی طرح سنت ہے کہ نماز تراویح کا اختتام وتر سے ہو انسان دو رکعتیں جفت پڑھے اور سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت طاق پڑھے اور یہی افضل ہے کیونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما جفت اور طاق رکعتوں میں سلام پھیر کر علیحدگی کرتے تھے اور کہتے تھے کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے اور یہ بھی مسنون ہے کہ انسان فاتحہ کے بعد جفت رکعتوں میں پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ کافرون پڑھے اور طاق رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے۔ اور تینوں رکعتیں مسلسل ایک تشہد اور ایک سلام سے پڑھنا بھی جائز ہے۔ البتہ دو تشہد اور ایک سلام سے پڑھنا درست اور جائز نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ مغرب کی نماز کے مشابہ ہو جائے گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔وتر میں قنوت پڑھنا بھی مسنون ہے حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند جملے سکھائے جنہیں میں قنوت وتر میں پڑھا کرتا ہوں اور وہ دعا درج ذیل ہے:
اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ.اور انسان دعائے قنوت میں دونوں ہاتھوں کو اٹھائے گا جناب ابورافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے رکوع کے بعد قنوت کیا اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور بلند آواز سے دعا کی۔
دعائے قنوت رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد دونوں طرح سے جائز ہے البتہ افضل ہے کہ یہ رکوع کے بعد پڑھیں کیونکہ اس سلسلے میں بہت ساری حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔افضل اور مستحب ہے کہ نماز پڑھنے والا شخص دعائے قنوت میں وہ دعائیں پڑھے جو کتاب و سنت میں موجود ہیں اور اگر کتاب و سنت سے باہر کی کوئی دعا پڑھتا ہے تو یہ بھی جائز ہے اور مقتدی آدمی امام کی دعا پر آمین کہے گا اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے گا اس کی تسبیح کرے گا جب امام اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے یا پھر وہ خاموش رہے گا۔وتر سے سلام پھیرنے کے بعد مسنون ہے کہ انسان سبحان الملک القدوس کہے ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر سے سلام پھیرتے تو سبحان الملک القدوس کہتے اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ جب آپ سلام پھیرتے تو کہتے سبحان الملک القدوس تین مرتبہ اور آپ تیسری مرتبہ اپنی آواز بلند کرتے اور ایک روایت کے الفاظ ہیں تیسری میں آپ آواز کھینچتے۔
امام کے لیے نماز تراویح میں زیادہ بہتر ہے کہ قرت قرآن کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرے چنانچہ صحیح اور تجوید کے ساتھ تلاوت کرے آسانی سے بغیر کسی تکلف کے جو پڑھ رہا ہے اس پر غور و فکر کی گنجائش رہے نماز میں خشوع و خضوع باقی رہے دعائے قنوت میں سنت کی اقتدار ہے اور دعا میں نہ تو لحن رہے اور نہ ہی غنائیت اور پھیلاؤ وغیرہ ہو کیونکہ دعا گریہ و زاری اور مسکنت ظاہر کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالی کے سامنے ذلت ظاہر کرنے کا نام ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: {ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} [الأعراف : 55] کہ اپنے رب کو پکارو گریہ و زاری کے ساتھ چپکے چپکے بے شک وہ دعا میں زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ دعاء میں زیادتی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آواز کو بہت زیادہ بلند کیا جائے چیخا جائے یا پھر مسجع مقفی اور بتکلف دعائیں جو کہ کتاب و سنت میں وارد نہیں ہیں۔اسی طرح سے امام کے لیے جائز نہیں ہے کہ نماز تراویح کی ادائیگی میں عجلت اور جلدبازی سے کام لے کیونکہ یہ چیز قیام رمضان کے سلسلے میں سنت نبوی اور طریقۂ سلف کے خلاف ہے جناب سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ جناب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 11 رکعت نماز پڑھائیں وہ کہتے ہیں چنانچہ قاری 100 آیتوں والی سورتیں پڑھتے یہاں تک کہ ہم عصا پر ٹیک لگا لیتے کیونکہ قیام لمبا ہوتا تھا اور ہم فجر کے قریب واپس ہوا کرتے تھے۔
اسی لیے اہل علم نے مستحب اور افضل قرار دیا ہے کہ امام رمضان میں قرآن مجید کو ختم کرے اگر یہ آسانی سے ممکن ہو اور مقتدیوں کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہو تو افضل ہے ورنہ اتنی سورتیں پڑھے جس میں سہولت ہو تاکہ لوگوں کو مشقت نہ ہو اور نماز تراویح کی ادائیگی میں لوگوں کو رغبت ہو اسی طرح عورتوں کے لیے مسجدوں میں تراویح میں حاضر ہونا جائز ہے اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور عورت پر واجب ہے کہ جب وہ مسجد کو جائے تو پورے بدن کو ڈھانپ لے خوشبو نہ لگائے بے پردہ نہ رہے اور زینت ظاہر نہ کرے۔
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین