پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کو مطلقاً احسن الحدیث قرار دیا ہے اور بندوں کی جانب اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ کتابوں میں سے سب سے اچھی کتاب بتایا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: {اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ} [الزمر : 23]اللہ نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) اللہ کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
یہی اللہ تعالی کی مضبوط رسی ہے یہی ذکر حکیم ہے اور یہی وہ کتاب ہے کہ جب اسے جنوں نے سنا تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ (الجن: ٢،١ ) بے شک ہم نے ایک عجیب قران سنا ہے جو ہدایت کی جانب رہنمائی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔جو اس کے مطابق بات کرتا ہے وہ سچا ہوتا ہے اور جو اس کے مطابق عمل کرتا ہے اسے ثواب دیا جاتا ہے جو اس کے موافق فیصلے کرتا ہے وہ عدل کرتا ہے اور جو اس کی جانب دعوت دے اسے صراط مستقیم کی ہدایت دی جاتی ہے۔قران کریم کی برکت ہے کہ یہ قرآن مجید قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا۔ ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت قرآن کرنے والوں کے بارے میں فرمایا : "اقْرَءُوا الْقُرْآنَ ؛ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، تم لوگ قران مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی ہوگا۔
اس کی تلاوت تلاوت کرنے والے کو بلند درجات تک پہنچاتی ہے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ” يُقَالُ – يَعْنِي لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ – : اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا‘‘ رواہ الترمذی تلاوت قرآن کرنے والے سے کہا جائے گا پڑھتے رہو اور چڑھتے رہو اور قرآن مجید کو اسی طرح ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کے پڑھو جیسے کہ دنیا میں پڑھا کرتے تھے تمہارا درجہ وہ جگہ ہوگی جہاں تم آخری آیت پڑھو گے۔جو قرآن مجید میں مہارت حاصل کرلے وہ ایسے لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہوگا جو سردار اور نیک ہیں۔
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ .( متفق علیہ )قرآن مجید میں مہارت حاصل کرنے والا لکھنے والے سردار اور نیک فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قران مجید مشقت کے ساتھ اس میں اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اس حال میں کہ اس کے اوپر گراں گزرتا ہے اس کے لیے دہرا اجر ہوگا۔ دہرے اجر سے مراد تلاوت کا ثواب اور پڑھنے والے کے لئے اس پر ہونے والی اس کی مشقت کا ثواب ہے۔اور جو قران مجید کا ایک حرف پڑھتا ہے اس کے لیے 10 نیکیاں لکھی جاتی ہیں پھر اللہ تعالی جس کے لیے چاہتا ہے اس کے لیے کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ : الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلَامٌ حَرْفٌ، وَمِيمٌ حَرْفٌ. (رواہ الترمذی) جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور نیکی 10 گنا ہوتی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ الف لام میم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْأُتْرُجَّةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ، لَا رِيحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ(متفق علیہ) اس مومن کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ ہوتا ہے اور جس کی خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِلِ ؟ ‘‘. رواہ مسلم کیوں نہیں تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف جاتا ہے تو کتاب اللہ کی دو آیتیں سیکھ لیتا یا پڑھتا ہے یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین آیتیں تین اونٹنیوں سے اور چار آیتیں چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں اسی طرح مزید آیتوں کی تعداد کے مطابق اونٹنیوں سے بہتر ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ ؛ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ.(رواہ مسلم)
اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جو لوگ جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو اس کا درس دیتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا تذکرہ ان فرشتوں کے روبرو کرتا ہے جو اس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کے بے شمار فضائل ہیں اور تلاوت قرآن کرنے والا بہت زیادہ ثواب حاصل کرنے والا ہوتا ہے، قرآن مجید وہ افضل ذکر ہے جو انسان کرتا ہے اور اس کے فضائل اور اس کا اجر بڑھتا رہتا ہے جب کہ اس کی تلاوت اچھے ایام اور اچھی ساعات و اوقات میں ہوا کرے جیسے کہ رمضان کا مہینہ اور یہ چیز ایک بندۂ مسلم کو ان فضیلت والے ایام کو غنیمت سمجھنے پر ابھارتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کی طرف رغبت کرے اور اس میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے۔
ایک مسلمان کو تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ اس میں تدبر اور غور و فکر کا بھی حریص ہونا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت حضور قلب کے ساتھ ہونی چاہیے ایک مسلمان کو تلاوت قرآن کے وقت اس پر عمل کرنے کا بھی حریص ہونا چاہیے اللہ تعالی فرماتا ہے: {كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ} [ص : 29]
یہ کتاب جو ہم نے آپ کے اوپر نازل فرمائی ہے ایک مبارک کتاب ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقل مند لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن مجید کی برکت اور اس کا نفع ان سب باتوں سے عظیم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: {إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ} [ق : 37] بلاشبہ اسی میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کے پاس آگاہ دل ہو یا وہ کان لگاکر توجہ سے سنتا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی چیز تلاوت قران سے بڑھ کر اور اس میں تدبر اور تفکر سے بڑھ کر دل کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔
تو لوگو! اس ماہ مبارک کو غنیمت سمجھو اللہ تعالی تم پر رحم کرے اس میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کرو کیونکہ بلاشبہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، جبرائیل علیہ السلام رمضان کے مہینے میں ہر سال ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے اور جس سال آپ کا انتقال ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے ثبوت و تاکید کے لئے دو مرتبہ قرآن مجید پڑھایا۔ رمضان میں سلف صالحین کا طریقہ تھا کہ اسلاف زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کیا کرتے تھے اور اس فرصت اور فضیلتوں والے ایام کو غنیمت سمجھتے ہوئے کئی کئی بار ختم کرنے کے حریص ہوتے تھے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تو کہتے کہ یہ تو تلاوت قرآن اور لوگوں کو کھلانے کا مہینہ ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جب رمضان داخل ہوتا تو حدیث پڑھانا اور علم کی مجلسوں میں حاضر ہونا چھوڑ دیتے اور تلاوت قرآن اور مصحف کی جانب متوجہ ہوجاتے۔ اسود بن یزید رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے کہ رمضان میں ہر دو رات میں قرآن مجید ختم کرتے تھے امام مجاہد بن جبر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رمضان کی ہر رات کو ایک بار قرآن ختم کرتے تھے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں روایت ہے کہ رمضان میں وہ قرآن مجید کو 60 مرتبہ ختم کرتے تھے۔
تو لوگو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو سلف صالحین کی اقتداء کرو اور ان کے راستوں پر چلو کیونکہ یہ تھوڑے سے دن ہیں جو جلد ہی ختم ہو جائیں گے اور انسان کو یہ دنیا کوئی فائدہ نہیں دے گی سوائے ان اعمال کے جو اس نے نیک عمل کیے ہیں اسی کے ذریعے اللہ تعالی کی رحمت اور جنت حاصل کی جا سکتی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: {وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ} [الزخرف : 72] یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے اسی طرح سے اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَأَن لَّيْسَ لِلإِنسَانِ إِلاَّ مَا سَعَى * وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى * ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاء الأَوْفَى وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنتَهَى} (النجم: ٣٩- ٤٢) انسان کے لیے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی اس کی کوشش دیکھی جائے گی پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور بلاشبہ تمہارے رب تک پہنچنا ہے۔ و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین