حافظ شہنواز احمد سلفی بگھونوی
8210701452
shahnawazahmad02345@gmail.com
اللہ مالک الملک کا قانون ہے کہ جو کوئی بھی مجاہدہ کرےگا رب ذوالجلال اسے ہدایت کے راستے سے سرفراز کریں گے اور صرف اسے ہدایت ہی نہیں ملے گی بلکہ اللہ اپنی نصرت ، تائید ، مدد اور معیت خاصہ سے بھی نوازیں گے اس حقیقت کو قرآن مجید کے اندر بڑے ہی خوبصورت انداز میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے:والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا وان الله لمع المحسنين (العنکبوت ٦٩)اس آیت کے معنی بہت وسیع ہیں ، اس لئے مفسرین نے مختلف انداز میں اسے تعبیر کیا ہے ۔ یہاں ذیل میں چند اقوال بیان کئے جاتے ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،اس کے معنی یہ ہیں کہ جنہوں نے ہماری اطاعت کرنے میں کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنے ثواب کے راستے دکھا دیں گے۔حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ علم حاصل کرنے میں کوشش کریں گے ،ہم ضرور انہیں عمل کی راہیں دکھا دیں گے۔ حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو سنت کو قائم کرنے میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنت کے راستے دکھادیں گے۔یہ آیت ِکریمہ بہت ہی جامع ہے یعنی جو توبہ میں کوشش کریں گے انہیں اِخلاص کی، جو طلب ِعلم میں کوشاں ہوں گے انہیں عمل کی، جو اِتِّباعِ سنت میں کوشش کریں گے انہیں جنت کی راہ دکھا دیں گے ۔ حق تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے راستے ہیں جتنے تمام مخلوق کے سانس ہیں ۔
{وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ: اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔ ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نیک لوگوںکے ساتھ ہے کہ دنیا میںان کی مدد و نصرت فرماتا ہے اور آخرت میںانہیںمغفرت اور ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔جس طرح ایک تاجر اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے اسکی بقا اور ارتقاء کے کچھ قیمتی اوقات و مواسم کو مختص کرکے رکھتا ہے جس میں اسکی تجارت کو ترقی ملتی ہے اور زیادہ منافع کا حصول ہو تا ہے اسی طرح اللہ مالک الملک نے مسلمانوں کے ایمان کی تجارت کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کے روحانی عروجاور صفات سے متصف کرنے کے لئے جو اللہ بندے میں دیکھنا چاہتے ہیں کچھ موسم بنائیں ہیں ان میں سب سے خوبصورت اور سب سے عظیم البرکت موسم جو نیکیوں کا موسم بہار ہے جس میں اللہ کی رحمت ، برکت ، محبت ، الفت ، شفقت، عنایت ، بارش کی طرح برستی ہیں وہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جس کی اہمیت و فضیلت اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلف صالحین چھ ماہ قبل ہی اس کی تیاری کے لئے کمر کس لیتے اور چھ ماں تکیہ دعا کرتے کہ اے اللہ مجھے رمضان المبارک کے ایام سے سرفراز کر دے ۔
یہ حقیقت ہے کہ رمضان کی تیاری رمضان سے پہلے کرنی چاہیے انسان تصور کرے کہایک اعلی مہمان جب کسی کے گھر آتا ہے تو اس کے لئے کتنے انتظامات کیے جاتے ہیں پر تکلف کھانے بنائیں جاتے ہیں تاکہ آنے والے مہمان خوش ہو کر جائیں رمضان المبارک کا مہینہ اللہ کا سب سے بڑا مہمان سایہ فگن ہونے والا ہے جس کی خوشبو سے ہر چیز معطر ہونے لگی ہے۔ذیل میں چند اہم نکات ذکر کئے جارہے ہیں جو استقبال رمضان اور اس کی تیاری کے لئے ضروری ہیں جس کے زریعے انسان اپنے رمضان کو ثمر آور بنا سکتا ہے
(١) تیاری سے پہلے فکر
کسی بھی چیز کی تیاری کرنے سے پہلے فکر ضروری ہے بغیر فکر کے تیاری ناممکن ہے فکر ہوگی تو تیاری ہوگی اور اگر عدم فکر ہوگی تو تیاری یا تو ناقص اور کمزور ہوگی یا ہوگی ہی نہیں ، آج لوگوں کے اندر سے آخرت کی تیاری بلکل مفقود ہے کیونکہ فکر مفقود ہے اسی طرح رمضان کی تیاری سے انسان غافل ہے اس لیے کہ فکر سے غافل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ کو اتنی فکر ہوتی تھی کہ جوں جوں رمضان قریب آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لقائے الہی کا اشتیاق مزید بڑھتا چلا جاتا ، اس اسوۂ نبوی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کی کتنی فکر رہتی تھی لہذا فکر تیاری کو استحکام بخشتی ہے ۔
(٢) عظمت کا احساس
جو چیز عظیم ہوتی ہے اس کی عظمت کا احساس اور قدر و منزلت کا لحاظ کرنے والوں کو بھی وہ چیز عظیم بنا دیتی ہے لہذا رمضان کی تیاری اور استقبال کے لئے اس احساس کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ اگر احساس عظمت دل سے نکل جائے تو پھر رمضان کو انسان ثمر آور نہیں بنا سکتا اللہ رب العزت اس مہینے کی عظمت اور قدر و منزلت کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: انا انزلناه في ليله القدر وما دراك ما ليله القدر ليله القدر خير من الف شهر تنزل الملائكه والروح فيها باذن ربهم من كل امر سلام هي حتى مطلع الفجر۔
دوسری جگہ سورہ بقرہ میں اس ماہ مقدس کی عظمت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے ( شهر رمضان الذي انزل فيه القران هدى للناس وبينات من الهدى والفرقان)رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا اور قرآن کی یہ عظمت ہے کی جس کی نسبت اس سے جڑ جاتی ہے وہ چیز بھی عظیم بن جاتی ہے قرآن کا نزول اس مہینے کی عظمت و فضیلت کو دوبالا کر دیتا ہے اس ماہ مقدس کی عظمت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں اس طرح ذکر فرمایا،(إذا دخل رمضان فُتحت أبواب السماء، وفی روایۃ: ’’فُتحت أبواب الجنۃ‘‘ وغُلقت أبواب جہنم ، وسُلسلت الشیاطین، وفی روایۃ ’’فُتحت أبواب الرحمۃ۔‘‘(متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصوم،ص:۱۷۳)’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔‘‘
’’قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ظاہری معنوں پر بھی محمول ہوسکتی ہے، لہٰذا جنت کے دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا اور شیطانوں کا قید ہونا اس مہینے کی آمد کی اطلاع اور اس کی عظمت اور حرمت وفضیلت کی وجہ سے ہے، شیاطین کا بند ہونا اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی وروحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچاسکیں، جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ وفتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلادیتی ہے، یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے کہ شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہوجاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہوجاتے ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اورمہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہوسکتیں، وہ عموماً رمضان میں بآسانی ادا ہوجاتی ہیں،یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ۔‘‘(نووی شرحِ مسلم، از برکاتِ رمضان ، ص:۴۴)الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتہ چل جائے تووہ تمنائیں کریں کہ کاش! سارا سال رمضان ہوجائے۔
(٣) نعمت کا احساس
رمضان جہاں اللہ رب العزت کی طرف سے بندوں کے روحانی ایمانی عروج و ارتقاء کے لئے عطا کیا گیا ایک عظیم تحفہ ہے وہیں اللہ کی عظیم نعمت بھی ہے جس کا احساس دل میں ہر وقت موجود ہو کیونکہ عام طور پر جو نعمت بغیر کسی محنت کے میسر ہو جاتی ہیں انسان اسکی قدر بھول جاتا ہے اور سستی، کاہلی، بے اعتنائی ، احسان فراموشی ، اور نا شکری جیسے اوصاف سے متصف ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ شکران نعمت کی جگہ کفران نعمت کا شکار ہوجاتا ہے اور رب کی رضا اور خوشنودی سے دور چلا جاتا ہے لہذا ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ رمضان کی عظمت کا احساس دل میں ہو اور نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے( لان شكرتم لازيدنكم ولئن كفرتم ان عذابي لشديد)
(۴) دل کی صفائی
دل اعضائے جسمانی کا بادشاہ ہے اعضاء و جوارح سے عمل کے صدور میں دل کا بڑا اہم اور مرکزی کردار ہوتا ہے دل جس قدر صاف و شفاف ہوگا عمل بھی اسی قدر صاف و شفاف اور حسین ہوگا اور اگر دل کی کیفیت و حالت خراب ہوگی عمل بھی اسی قدر خراب ہوتا چلا جائے گا اس لئے عمل کو صالحیت کے مقام تک پہنچانےاور بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت سے ہم کنار کرانے کے لئے دل کا صاف ہونا ضروری ہے ، اس لئے رمضان المبارک کے استقبال اور تیاری میں دل کو صاف ستھرا رکھنے والے ہی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ جس کے دل میں کسی کے لئے حسد ہو ، کینہ ، جلن ، عداوت ، حسد ، اور بغض ہو اور انسان اس اوصاف رزیلہ کے ساتھ رمضان میں داخلہو تو کتنا ہی خلوص نیت کے ساتھ عبادت کا نذرانہ رب کے پاس پیش کرے وہ قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا لہذا ہمیں اسلاف کی زندگی سے بڑا اہم سبق ملتا ہے کہ وہ لوگ رمضان کا استقبال اور اس کی تیاری کیسے کرتے تھے اور ان کے دل کی حالت کیسی ہوتی چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی پوچھا ماذا كنتم تستقبلون رمضان؟کہ صحابہ کرام رمضان کا استقبال کیسے کرتے تھےحضرت عبد اللہ بن مسعود نے جواب میں ارشاد فرمایا ما كان احدنا يجري علياستقبال الھلال فيه ذرة حقد علي اخيه المسلمہم میں کا کوئی صحابی رمضان کا چاند دیکھ لیتا تو اس کے بعد کسی صحابی کی جرت تک نہیں ہوتی کہ اس کے دل میں کسی مسلمان بھائی کے لئے دل میں کینہ ہو ۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لم يدرك من عندنا من ادرك بكثرة الصيام و لا صلاة و انما ادرك بسخاء الانفس ، و سلامة الصدر ، و نصح الامة صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وہ مقام کیسے ملا ؟ زیادہ نماز کی وجہ سے ، زیادہ روزہ کی وجہ سے ،فرمایا نہیں وہ مقام انہیں اس لئے ملا کیونکہ ان کے دل بہت پیارے تھے ، وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے تھے ان کے سامنےدولت کی نہیں بلکہ جنت کی قیمت تھی ، وہ امت کے ہمدرد تھے ۔
مزکورہ آثار سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے دل کو بالکل آیینہ کی طرح صاف رکھتے تھے جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں بڑے درجات سے سرفراز فرمایا سعد بن معاذ رضی اللہ علیہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی رسول ہیں صرف چھ سال اسلام کی حالت میں گزارے پھر و فات پا گئے ان کے وفات پر اللہ تعالیٰ کا عرش جھوم اٹھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں انہیں جنت کی بشارت کچھ اس طرح دی کہ صحابہ سے آپ نے فرمایا ابھی اس دروازے جو شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہوگا لوگوں نے دیکھا کہ وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں ایک صحابی گھر میں ان کے ساتھ تین دن گزارتے ہیں جب مدت پوری ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت سنائی جو عبادت آپ کرتے ہیں ہم بھی کرتے ہیں صحابی کہتے ہیں
فلما توليت دعانيجب میں جانے کے لئے پلٹا تو سعد بن معاذ نے مجھے بلا کر کہا تین باتیں ہیں جو میرے اندر ہیں لا أجد غلا لاحد من المسلمين ، میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لئے کینہ نہیں رکھتا ، و ليس في قلبه غمر اور میں اپنے دل میں گراں نہیں رکھتا ، و لا احسد علي احد علي شيء اعطاء الله اياه اور میں کسی سے حسد نہیں رکھتا اس چیز پر جو اسے اللہ نےعطا کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اگر دل کی کیفیت انسان بہتر کر لے اور ہر طرح کی برے اوصاف سے دل کو صاف کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نذدیک بڑا مقام و مرتبہ کا حقدار ہو سکتا ہے اور وہ اپنے رمضان کو ثمر آور بناکر اللہ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہر سکتا ہے۔
(٥) پیش قدمی کی ضرورت
اپنے رمضان کو کامیاب بنانے اور اس کا استقبال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ برائی سے اجتناب اور بھلائی کی طرف پیش قدمی کی جایے کیونکہ گناہوں سے لبریز انسان نیکیوں کی راہ کو اختیار نہیں کر سکتا شیطانی وساوس اسے اس طرف کھینچ کر لے جاییں گے اگر آدمی توبہ کرکے انابت الی اللہ کرتا ہے اور ہر طرح کی برائی سے اپنے دامن کو پاک کرکے بھلائی کی راہوں کو اختیار کرتا ہے تو وہ رمضان المبارک کے ایام کو بہتر انداز میں اپنے لئے توشہ آخرت بنا سکتا ہے اور جنتیوں کی فہرست میں داخلہ اور جہنمیوں کی فہرست سے نجات حاصل کر سکتا ہے کیونکہ ایک مومن کا شیوہ ہے کہ وہ اپنےگناہوں پر مصر نہیں رہتا بلکہ اپنے رب کی طرف پلٹنے والا اور توبہ کرنے والا ہوتا ہے اس حقیقت کو قرآن میں اللہ نے ذکر فرمایا والذين اذا فعلوا فاحشه او ظلموا انفسهم ذكر الله فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب الا الله ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون پرہیزگاروں کے اوصافکا بیان ہےاوریہاں ان کا مزید ایک وصف بیان فرمایا، وہ یہ کہ اگر اُن سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرکے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ، اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ کیلئے اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرلیتے ہیں اور اپنے گناہ پر اِصرار نہیں کرتے اور یہی مقبول توبہ کی شرائط ہیں۔
خلاصہ تحریر یہ ہے کہ اگر ہم مزکورہ بالا نکات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرتے ہیں تو ہم رمضان کی تیاری اور اس کا استقبال بہتر بنا سکیں گے اور رمضان کی سعادتوں سے مکملطور پر فائدہ اٹھا کر من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری)اور دوسری روایت میں من قام رمضان کے مصداق بن سکیں۔اللہ تمام مسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین