پرویز یعقوب مدنی
جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
رب کائنات دونوں جہان کا مالک ہے، ہر چیز کو اس نے عدم سے وجود بخشا، دنیا کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کردہ ہیں، دنیا کی تمام مخلوقات، کائنات کا ہر ذرہ، چاہے وہ حیوانات ہوں یا نباتات یا جمادات ہمیشہ اور ہر آن و ہر لمحہ اسی باری تعالیٰ کے گن گاتے ہیں، اسی کی تسبیح و تہلیل بیان کرتے ہیں گویا یہ باری تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور اس کے اسماء و صفات میں منفرد اور یکتا ہونے کی عظیم دلیل ہے۔ باری تعالیٰ نے کائنات کی کوئی چیز بلاضرورت نہیں پیدا کیا؛ بلکہ ہر ایک چیز کی اپنی خاص ضرورت اور اس کا بنیادی مقصد ہے جسے صاحب عقل و خرد، ہوش مند اور سلیقہ مند انسان بخوبی جانتا سمجھتا اور تسلیم کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو پیدا کیا اور اسے اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز بخشا، فرشتوں کو پیدا کیا اور انہیں معصوم بتایا جو فرشتے ہمشہ اللہ رب العالمین کے گن گاتے ہیں اس کے احکام و فرامین کو بجالاتے ہیں۔ یعنی ان کی تخلیق کا مقصد احکام الٰہی کی بجا آوری ہے۔
انسان جسے اعلی و اشرف کا اعزاز ملا ہے، اسے بھی اللہ رب العالمیں نے ایک واضح مقصد کے لئے پیدا فرمایا ہے، باری تعالیٰ کا فرمان ہے۔ {ومَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ} (الذاریات: ٥٦)ترجمہ : اور میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادۂ تکوینی سے ہوتا پھر تو کوئی بھی انس وجن اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت بازپرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس امتحان میں اللہ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔ لہذا ہمیشہ باری تعالیٰ کی عبادت کا شوق، اس کی عظمت و برتری کا احساس اور اس کے عقاب اور مختلف النوع سزاؤں کا خوف ہمارے دلوں کے جاگزیں ہونا چاہئے اور باری تعالیٰ پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے اس سے شرف ملاقات کے لئے مستعد اور اس کی جانب سے عظیم انعام کی شکل میں اس کی بنائی ہوئی جنت کے حصول کی کوشش اور سعی پیہم کرنا چاہئے۔ باری تعالیٰ ہمیں حصول جنت کی توفیق دے۔ آمین
حیف صد حیف! آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شیطان اور ابلیس کے چنگل میں پھنس کر اللہ کے سیدھے اور سچے راستے سے بھٹک کر اللہ کی وحدانیت اور عبادت سے غافل ہوکر اللہ کے علاوہ انسانوں کی بنائی ہوئی چیزوں کی عبادت میں منہمک ہے اور غیراللہ کی عبادت و پرستش کو خود کے لئے باعث افتخار سمجھتی ہے۔ اللہ رب العالمیں نے فرمایا{إنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوالَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ} (الاعراف: ١٩٤) ترجمہ: جولوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ دوسرے بھی تمہاری طرح کے ہی انسان ہیں۔ ان سے دعائیں مانگ کر دیکھو کیا وہ تمہاری پکار کا جواب دیتے ہیں اگر تم سچے ہو۔مذکورہ بالا آیت کا تقاضہ ہے کہ ہمیں اللہ رب العالمیں نے جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ہم اس مقصد کو بجا لائیں، عبادت و ریاضت کا ضابطہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اور اس کے پیارے حبیب نبی اکرم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں بالتفصیل اور واضح انداز میں بیان فرما دیا ہے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات خصوصاً اسلام کے بنیادی احکام و مسائل کو سمجھنا چاہئے اور مقصد تخلیق کو بروئے کار لانا چاہئے، شرک و بدعت، فتنہ و فساد سے دور رہ کر ایک اللہ کو اپنا حقیقی خالق مالک اور رازق سمجھنا چاہئے اس کے بہترین ناموں کے معانی و مفاہیم کو سمجھتے ہوئے ان کے ذریعے سے دعائیں کرنی چاہئے اللہ رب العالمیں کے جملہ اوصاف و کمالات پر ایمان و ایقان رکھنا چاہئے۔
یاد رکھیں ایک اللہ کی عبادت کرکے اسے راضی کرنا ہم مسلمانوں پر فرض ہے، آج ہمارے نام نہاد مسلمان بھائی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اللہ کے علاوہ جس کو بھی پکارتے ہیں ان سے منت سماجت کرتے ہیں ان کے سامنے اپنی فریاد رکھتے ہیں وہ کسی کے کام نہیں آسکتے۔
فرمان باري ہے {وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} (الأنعام: ١٥)ترجمہ: اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
دوسري جگہ فرمایا { وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚوَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} (يونس: ١٠٧)ترجمہ : اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہیے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں آیت کریمہ کے اندر خیر کو فضل سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھلائی کا معاملہ فرماتا ہے، اعمال کے اعتبار سے اگرچہ بندے اس کے مستحق نہیں۔ لیکن یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ اعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے، انسانوں پر پھر بھی رحم و کرم فرماتا ہے۔ نیز نفع و نقصان کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا بھی صرف اللہ کی ذات ہے اور اس کے حکم وقضا کو کوئی رد کرنےوالا نہیں ہے۔
ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ’’اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ‘‘ (بخاری، كتاب الاعتصام والقدر والدعوات- مسلم كتاب الصلاۃ والمساجد)۔ترجمہ : آئے اللہ جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی۔
نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانا چاہئے اسی سے مانگنا اور اسی کو اپنا حاجت روا مشکل کشا سمجھنا چاہئے اسی سے محبت و عقیدت کا دم بھرنا چاہئے وہی داتا ہے باقی ساری مخلوقات اسی کے دست نگر ہیں، اسی اللہ کی عبادت میں کامیابی و کامرانی ہے اور اللہ کے سوا کوئی نبی یا رسول، کوئی ولی یا نیک انسان، کوئی درخت یا پتھر غرضیکہ ذات باری کے علاوہ کوئی بھی مخلوق کسی کا روزی رساں یا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو موت وحیات دینے پر قادر ہے نہ ہی کسی کی کوئی پریشانی اور بیماری کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ علامہ حالی رحمہ اللہ نے اپنے شعری مجموعہ مدوجزر اسلام معروف بہ مسدس حالی کے اندر کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ملاحظہ ہو۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت وجبل نامِ حق سے
سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر
کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں
اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خم معرفت کا تھا منہ خام اب تک
نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبداء و منتہا سے
لگائی تھی ایک اک نے لو ماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے
یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا
کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرو گر مرو تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کی بڑائی
خرد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم
کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی
علامہ حالی کے ان اشعار میں توحید باری تعالیٰ اور اس کے خصائص و امتیازات کا یک گونہ تذکرہ ہے نیز اللہ رب العالمین کی الوہیت کا اچھوتا انداز ہے اس کی ربوبیت کی یقین دہانی کرائی گئی اور معبودانِ باطلہ کی تردید اور بعض نام نہاد مسلمانوں کے فرسودہ اور مشرکانہ اعمال کی بیخ کنی ہے۔ اہل عرب کے حالات اور جاہلانہ عادات و اطوار اور بعثت نبوی کے مقاصد پر سرسری تبصرہ کرکے علامہ رحمہ اللہ نے پوری انسانیت کو اپنے اشعار کے ذریعہ یہ پیغام دیا ہے کہ ایک اللہ کی طرف لوٹنے اور اسی کی عبادت و بندگی بجالانے میں کامیابی و کامرانی، فلاح و بہبودی کا راز پنہاں ہے۔ البتہ بعض صوفیانہ الفاظ اللہ رب العالمین کے لئے لفظ خدا اور عشق وغیرہ کو بھی علامہ نے اپنے اشعار کے اندر جگہ دیا ہے جو کتاب و سنت سے متصادم اور ہمارے ایمان و عقیدہ کے برعکس ہے۔ باری تعالیٰ ہم سب کو ایک اللہ کی طرف لوٹنے والا بنادے ایک کتاب اور کلمہ اور ایک رسول کا پیروکار بنادے نیز مشرکانہ عقائد و اعمال سے ہماری حفاظت فرما اور تو ہمیں اپنی عبادت و بندگی کی توفیق ارزانی نصیب فرما۔ آمین