سرسید خاں اعلیٰ مفکر ماہر تعلیم ، مورخ اور صاحب اصلوب شخصیت کے علمبردار:پروفیسر راحت ابرار
سہارنپور،سماج نیوز: (احمد رضا) ہر سال کی طرح امسال بھی بڑی عقیدت اور شان و شوکت کے ساتھ کل دیر شام یہاں علی گڑھ اولڈ بوائز الومنی ایسو سی ایشن سہارنپور کی جانب سے ہوٹل اسکائی لارک میں پر وقار انداز میں سرسید ڈے کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت سوشل تنظیم پرچم کی سربراہ ڈاکٹر قدسیہ انجم نے فرمائی اور نظامت کے فرائض براؤن ووڈ پبلک اسکول کی سرپرست اور تنظیم کی سیکرٹری صبوحی افتخار نے بہ خوبی انجام دئے اس موقع پر مہمانوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مہمان خصوصی علیگڑھ سے تشریف لائے سابق پبلک ریلیشن آفیسر پرو فیسر راحت ابرار نے کہا کہ سرسید احمد خاں عظیم مفکر ماہرِ تعلیم ، مورخ اور صاحب اصلوب شخصیت کے مالک تھے آپنے مسلم آبادی میں تعلیمی سماجی معاشرتی اور اخلاقی ترقی کے رجحان کو اُجاگر کرنے کے لئے لاثانی کوشش کیں۔ سر سد احمد خان کی بنیادی حیثیت ایک سماجی مصلح کی تھی سرسید 1857 کی پیدا وار اور بیباک سو چ کے دلدادہ تھے۔ اُنہوں نے اپنی دوربینی سے اندازہ لگا لیا تھا کہ قنوطیت اور شکست خوری کی پالیسی جو مسلمانوں میں 1857 کے بعد پائی جاتی تھی اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے صرف تعلیم ہی ایسا ھتیار ہے جو انکا خاتما کر سکتا ہے۔ پروفیسر راحت ابرار نے تفصیل سے سرسید اور سہارنپور کے علماء کے رشتوں پر روشنی ڈالی جن میں خاص طور سے مولانا فیض الحسن پیرجی مولوی عارف مولانا طفیل احمدِ منگلوری وغیرہ کا ذکر کیا۔ علی گڑھ سے آئے مہمان ذی وقار پرو فیسر جمال فاروقی صاحب نے کہا کہ ہمیں تعلیمی اداروں کو۔ قائم کرنے انہیں چلانے اور ان اداروں کے بہترین طالب علموں پر محنت کرنی چاہیے مسلمان اعلیٰ تعلیم میں 5 پرسنٹ ھیں جو بہت تشویشناک ہے ہمیں اس جمود کو ختم۔ کرنا ہوگا مہمان ذی وقار سابق آر ٹی آئی کمشنر حافظ عثمان نے کہا کہ سرسید نے مسلمانوں کو تقلید توہم پرستی اور تنگ نظری سے نکالنے کی حتی المقدور کوشش کی انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود وہ مسلمانوں میں مغربی تعلیم کے علمبردار رہے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام کیا جسکا مقصد عوام میں سائنسی مزاج پیدا کرنا تھا عزت سے جینے کے لئے مسلمان صرف تعلیم پر محنت کریں سرسید کے زریعے چلائی گئی تعلیمی تحریک نے دل شکستہ مسلم معاشرے میں اُمیدوں کے چراغ روشن کیے وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہر علاقے میں اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں جو عصری تقاضوں کے ساتھ انکی دینی ضروریات کو بھی پورا کریں علیگڑھ میں 1875 میں مدرستول علوم کی بنیاد رکھی جو باد میں ترقّی کرکے آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں علم و ادب کا ایسا سرچشمہ بنا ہؤا ہے جس سے کروڑوں لوگ فیضیاب ہو چکے ہیں ۔سرسید نے قلم اور عملی جدّو جہد دونوں میدانوں میں عظیم کارنامے انجام دیئے۔
اسلام پر ہونے والے حملوں کا جواب بھی سرسید نے متعدد کتابیں لکھ کر دیا۔قرآن کی تفسیر لکھی ۔سیاسی بیداری لانے کی غرض سے سرسید نے اسباب بغاوت ہند اور سرکشی بجنور جیسے کتابیں لکھیں کہا کہ انہوں نے تہذیبی اخلاق نام کا رسالہ جاری کیا جس میں معاشرے کی برائیوں کو دور کرنے اور اچھے سماج کی تعمیر کیے تعلّق سے مضامین کی اشاعتِ کی اشاعت کی نظامت کرتے ہوئے صفیہ صبوحی نے کہا کہ قوم کو بیدار کرنا اور دلِ شکستہ مسلم معاشرے میں اُمیدوں کے چراغ روشن کیے انکا تصوّر تعلیم بہت وسیع تھا صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر قدسیہ انجم علیگ نے کہا کہ سرسید کا سب سے بڑا پیغام ادارہ سازی ہے ادارے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں انسان تو آتے جاتے رہتے ہیں سرسید کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں تعلیمی درسگاہیں کھولنی ہونگی معاشرے کی ترقی کے لیے سماجی خدمات اور مذہبی معاملات کیلئے قران اور حدیث کا علم سیکھنا اور عمل کرنا ہماری ان کے لیے سچّی خراج عقیدت ہوگی ڈاکٹر شاہد زبیری ڈاکٹر عبد المالک مغیثی شازیہ مسعود ، سلیم کوثر وغیرہ نے اپنے اہم ترین خیالات کا اظہار کیا آخر میں مجاز لکھنوی کا لکھا یونیورسٹی ترانا یہ میرا چمن ہے میرا چمن گایا گیا مہمانوں کو مو من ٹو پیش کئے گئے اس موقع پر انوار احمد خلیق احمد کامران زبیری طارق طاہر گلناز زبیری اناس اِقبال نمرہ کا خاص تعاون رہا پروگرام میں عثمان سلیم کوثر تنویر ،افسر ا ڈاکٹر ایوب، سلیم احمد وغیرہ بڑی تعداد میں لوگ موجود رہے۔