رکن پارلیمنٹ غلام علی کھٹانا سے ملاقات میں اردو سروس، اردو مجلس اور قومی کونسل برائے ترقی ارردو زبان سے متعلق گفتگو
نئی دہلی، سماج نیوز: آج کے اردو کش دور میں سیاست اور ارباب اقتدار کی جانب سے اردو کو ختم کرنے اور اس کی جڑیں کمزور کرنے کی ہر کوشش کی جارہی ہے۔ایسے میں اردو کے ہر ہمدرد اور ہر مخلص کا فرض ہے کہ وہ اس جانب توجہ کرے اور ارباب سیاست سے مانگ کرے کہ اردو کو اس کا حق دلایا جائے۔ان خیالات کا اظہار معروف شاعر اور اردو اکادمی دہلی کے سابق وائس چیرمین ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی نے رکن پارلیامنٹ جناب غلام علی کھٹانا سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات میں کیا۔تفصیل کے ساتھ انہوں نے جناب کھٹانا کو بتایا کہ گزشتہ دو سالوں سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی نہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور نہ کوئی اسکیم جاری کی گئی۔ اس سلسلے میں وہ چند ماہ قبل اس وقت کے ڈائریکٹر شیخ عقیل سے بھی مل کر بات کر چکے ہیں جس میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جلد کمیٹی بن جائے گی اور تمام اسکیموں کو جاری کر دیا جائے گا لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔انہوں نے رکن پارلیامنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد وزیرتعلیم اور وزیر اطلاعات و نشریات سے اس سلسلے میں بات کریں۔یاد رہے کہ گزشتہ دو سالوں سے اردو کتابوں کی خرید، اردو کتابوں کے مسودات پر مالی امداد اور دوسرے پروگراموں جیسے مشاعروں اور سیمیناروں پر روک لگی ہوئی ہے جس کی وجہ کمیٹی کا نہ بننا بتا یا جا رہا ہے جو بہت افسوس کی بات ہے۔ ماجدؔ دیوبندی نے اردو کی کمائی کھانے والوں کی بے حسی اور خاموشی پررنج و غم کا اظہار کیا کہ وہ صرف اپنے میں مست ہیں اور انہیں اردو سے کوئی لینا دینا نہیں۔اسی کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس جو 1965میں وجود میں آئی تھی اور جو پوری دنیا خاص کر پاکستان میں بے انتہا شوق اور توجہ سے سنی جاتی تھی ساتھ ہی ملک کی پالیسی کا بھی حصہ تھی،آج کسم پرسی کے حال میں ہے۔اردو مجلس میں جوچوبیس گھنٹے میں صرف آدھے گھنٹے کا پروگرام آتا ہے اس میں متعین پروگرام انچارج کی گروہ بندی اور گزشتہ کئی سالوں سے اپنے خاص لوگوں کو ہی بلانے سے اس کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔انتہا یہ ہے کہ زیادہ تر رپیٹ پروگرام چلائے جاتے ہیں جسے کوئی نہیں سنتا اور نہ اردو کے ادیبوں،شعراء اور دوسرے لوگوں کو اس سے کوئی غرض رہ گئی ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ افسران اردو کے نام پر نوکری کر رہے ہیں اور اردو کو مٹانے کے درپے ہیں جن کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔اردو سروس کے تین ٹرانسمشن نشر ہوتے ہیں۔پہلا صبح پانچ بجے سے دس بجے تک، دوسرا دوپہر دو بجے سے شام پانچ بجے تک اور تیسرا رات آٹھ بجے سے رات ایک بجے تک، جن میں خبروں سے لے کر صحت، صحافت، مشاعرے، کلامِِ شاعر، شامِ غزل، پرانے گانوں کا مشہور پروگرام’’ تعمیل ارشاد‘‘ مشہور پروگرام ہیں جن کو پوری دنیا سنا کرتی تھی جو اب نہیں سنے جاتے۔۱۹۶۵ء سے ایک آواز کروڑوں دلوں کی دھڑکن کے طور پر سنی جاتی تھی ’’یہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس ہے‘‘ جو اب معدوم ہو چکی ہے۔اردو پروگرام ’’رو برو‘‘، ’’نئی نسل نئی روشنی‘‘،’’بزم خواتین‘‘،’’ حفظان صحت‘‘، ’’فلمی دنیا‘‘، ’’سائنس نامہ‘‘، اور ’’کھیل کھلاڑی کی جگہ اب ’’ ہندی پروگرام ’’مارکیٹ منتر‘‘، ’’ ہیلو ڈاکٹر‘‘ اور ’’گلہائے رنگ‘‘ کی جگہ ہندی پروگرام ’’پریکرما‘‘، ’’ملے سُر میرا تمہارا‘‘ کی جگہ’’ ہندی پروگرام ’’سرخیوں میں‘‘، ’’ڈرامہ‘‘ کی جگی ہندی پروگرام’’ پورو اُتر کی ڈائری‘‘، ’’اندازِ نظر‘‘ کی جگہ ہندی پروگرام ’’منتھن‘‘، اردو پروگرام’’آئنہ‘‘ کی جگہ ’’چرچا کا وشے‘‘، ’’اردوفیچر‘‘ کی جگہ ہندی پروگرام’’ کنٹری وائڈ‘‘ اردو پروگرام ’’بلوچستان کی بات‘‘ کی جگہ ’’نیو انڈیا سماچار‘‘ نشر کئے جا رہے ہیں جو بے انتہا افسوس اور تعصب کی بنا پر اردو کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہیں مسٹر کھٹانا نے اس روداد کو سن کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ خود بچپن سے اردو سروس سنتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ کسی اردو والے نے انہیں یاکسی اور سرکار کے ذمہ دار کو اس بات کی طرف توجہ نہیں دلائی۔اپنے تفصیلی اظہار خیال میں انہوںنے کہا کہ وہ بہت جلد قومی کونسل کے سلسلے میں وزیر تعلیم اور اردو سروس اور اردو مجلس کیلئے وزیر اطلاعات و نشریات سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد اس سلسلے میں وہ ان وزراء سے ملاقات کر کے کچھ حل نکالنے کے کوشش کریں گے ساتھ ہی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرائیں گے۔ماجد ؔدیوبندی کی گزارش پر انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کوشش کریں گے کہ دسمبر میں ہونے والے پارلیامنٹ اجلاس میں ان دونوںمدعوں کو اٹھائیں۔ ان کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم خود اردو سے محبت رکھتے ہیں اور بارہا انہوں نے اپنی تقاریر میں اردوکے اشعار پڑھے ہیں۔دیکھنا ہے کہ موصوف اس سلسلے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں جس سے اردو والوں کو ان کا حق مل سکے ساتھ ہی قومی کونسل،اردو سروس اور اردو مجلس کی حالت سدھاری جا سکے۔