ڈاکٹر قدسیہ انجم علیگ (سہارنپور)
manjumqudsia14@gmail.co
غزل نے ایم. بی. اے. پا س کرکے کئی کمپنیوں میں اپنا رزیوم ڈال دیا تھا۔ کوالیفیکشن اچھی تھی ۔ اس لئے جلد ہی کمپنیوں کے کال لیٹر آنے لگے۔ غزل کئی جگہ انٹر ویو بھی دے آئی ۔اب رزلٹ کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ سوچ رہی تھی جلد ہی نوکری مل جائیگی تو گھر کی بہت سی ضرریات کو پورا کرونگی۔ امیّ ابّو نے کتنے جتن اور محنت کرکے سبھی بھائی بہنوں کو پڑھا رہے ہیں۔ مگر کیونکہ وہ سب سے بڑی ہے اسلئے اسکا فرض بنتا ہے کہ ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرے۔وہ خدا سے دعا مانگ رہی تھی کہ جلد ہی اسے اچھّی نوکری مل جائے۔ اوپر والے نے دعا قبول کی اور اسے ایک اچھّی کمپنی سے کال لیڑآگیا۔ پیکیج بھی اچھّا ملا تھا۔ امّی ابّو بھی خوش ہو رہے تھے۔ امّی نے غزل کو بلایا اور سمجھایا ’’بیٹا یہ تمہاری پہلی جاب ہے۔ آفس میں دل لگاکر کام کرنا ۔ یہاں اچھا کام کروگی تو آگے اور بھی بڑی کمپنی میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ ابّو بھی بہت خوش ہو رہے تھے ۔ اور اسے سمجھا رہے تھے کہ’’ـ بیٹا کام محنت سے کرنا ۔ باس کو شکایت کا موقع مت دینا۔ کام ٹائم پر پورا کرنا اور آفس ٹائم ختم ہونے پر سیدھے گھر آناــ‘‘۔’’ جی ابّو جی میں پوری محنت اور لگن سے کام کرونگی ۔ اور کمپنی اور آپکو کبھی شکایت کا موقع نہیں دونگی‘‘ ۔غزل خوشی خوشی آفس پہنچی۔ آفس کا پہلا دن کچھ سینئرس سے انٹروڈکشن اور کچھ کام سمجھنے میں بیتا۔آفس میں سارا کام کمپیوٹر پر کرنا ہوتا۔ کلائنٹس کو ای۔میل کچھ لوگوں سے میٹٹنگس بات چیت اور پھر سارے کام کی سمری بنا کر باس کو دکھانا ہوتی ۔ جلدی ہی اس کے کام کا اعتراف ہر کوئی کرنے لگا۔صبح گیارہ بجے سے شام پانچ کی ڈیوٹی کرکے تھکی ہاری گھر پہنچتی ۔ اّمی ابّو اس سے کام کے بارے میں پوچھتیـــــ۔ـ ’’ بیٹا کام میں کوئی پریشانی تو نہیں آ رہی۔ تم کام کو انجوائے کر رہی ہو۔بور تو نہیںہو رہی ‘‘ ـ ’’غزل نے کہا ’’ نہیں ابّومجھے تو ہمیشہ ہی محنت کرنا اچھا لگتا ہے۔ میں نے کبھی پڑھائی سے جی نہیں چرایا تو اب کام سے بور کیوں ہوئونگی بس دعا کرئیے کہ میری محنت کا صلہ ملے اور جلد ہی میرا پرموشن ہو جائے۔‘‘ امّی اور ابّو نے اسے ڈھیروں دعائیں دیں ۔ غزل دل ہی دل میں پلان بنا رہی تھی کہ جب اسے پہلی تنخواہ ملیگی تو امّی ، ابّو، بہن، بھائی کے لئے کیا کیا تحفہ لیکر جائیگی ۔ امّی کے لئے سوٹ ، ابّو کے لئے گھڑی، بہن کے لئے موبائل اور بھائی کی فیس ادا کردونگی ۔ پہلی تنخواہ ملنے پر اسنے حسب پلان سب کے لئے تحفے خریدے ۔ اور لدی پھندی گھر پہنچ گئی امّی ابّو بہن بھائی بھی تحفہ پا کر بہت خوش ہوئے ۔ ابّو نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’ بیٹا کیا ضرورت تھی یہ سب تحفہ تحائف لانے کی اپنی تنخواہ بینک میں رکھو۔ یہ تمہاری شادی میں کام آئینگے ۔‘‘ کام کرتے کرتے کچھ عرصہ بیت گیا ۔ اسنے محسوس کیا کہ جب بھی وہ باس کے کمرے میں جاتی اسے باس کی نظریں چبھتی ہوئی محسوس ہوتیںآج بھی غزل آفس آکر کام میں منحمک تھی کہ چپراسی آیا اور کہا ’’ آپکو باس بلا رہے ہیں‘‘ کمپیوٹر پر نظریں گڑائے ہی اس نے اسبات میں سر ہلایا ’’ آرہی ہوں‘‘ وہ اٹھکر باس کے کمرے میں گئی ’’ سر آپ نے مجھے بلایا ‘‘ باس نے سر سے پیر تک اسے طا ئرانا نظروں سے دیکھا اور سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے ’’ بیٹھو‘‘ غزل کرسی پر بیٹھ گئی۔ باس نے کہا ’’ کام کیسا چل رہا ہے ۔ اچھا لگ رہا ہے یہاں کام کرنا ‘‘ غزل نے جواب دیا جی مجھے ہمیشہ ہی محنت کرنا اچھا لگتا ہے میں اس کمپنی کے لئے بھی اپنا بیسٹ دونگی ۔ ’’باس نے کہا ‘‘ ۔ ’’دیکھو کام وام تو ہوتا رہیگا کبھی انجوائے بھی کرو‘‘ ۔ غزل نے پوچھا ’’ کیا مطلب ‘‘ باس نے کہا ’’ آج شام کو کیا کر رہی ہو ۔ غزل نے کہا ’’ میں تو کام ختم کرکے گھر ہی جاتی ہوں ‘‘ ’’ افّو اتنی بور لائف کام کرکے آدمی تھک جاتاہیں تو فریش ہونے کے لئے تھوڑا گھومنا پھرنا ضروری ہوتا ہے ۔ یہ کیا کہ کام کیا پھر گھر چلے گئے پھر کام پھر گھر ارے زندگی بہت مختصر ہے اس لئے زندگی کو بھرپور طریقہ سے جینا چاہئیے آج میرے ساتھ ریسٹورینٹ میں چلو ۔ تمہیں بڑھیا کھانا کھلائونگا اور پھر میرے ساتھ میرے گھر چلنا ۔ آ ج میرے گھر کے سب لوگ باہر گئے ہوئے ہیں اور پھر تمہارا پروموشن پکّا ۔‘‘ باس نے بے شرمی سے کہا ۔ غزل کے کان میں جیسے کسی نے پگھلا سیساڈال دیا۔ وہ بنا جواب دیئے آفس سے بھاگتی ہوئی باہر آئی ۔ سب لوگ نوٹس کر رہے تھے کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے لیکن سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے سب اپنی ڈیوٹی پر تھے اسلئے کسی میں ہمّت نہیں ہوئی کہ اٹھ کر اس کے پاس آئے۔
غزل سوچنے لگی کہ ایک لڑکی ہونا کتنا دشوار ہے۔ پہلے پڑھائی کے لئے اسڑگل، پھر سماج کے بھیڑیوں سے اپنے آپکو بچانے کی اسٹر گل، پھر جاب کے لئے اسٹرگل ۔ پھر گھر سے نکلنے اور سماج کے ٹھیکے دا روں کے کمینٹس ۔ اپنا کام میں نے کتنی محنت سے کیا ۔ لیپ ٹاپ پر سارا کام کرنا، اگلے دن کا سارا شیڈیول پلان کرنا، کلائنٹس سے میٹنگ۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ باس خوش ہو کر میرے کام کی تعریف کرینگے اور کہیں گے کہ کمپنی کو تم نے اپنی محنت سے ترقی دی ہے ’’ یو آر پروموٹیڈ ‘‘ مگر نہیں ۔ ان مردوں کے دماغ میں عورتوں کو لیکر گندگی ہی بھری رہتی ہے۔ عورتیں انکے لئے کھلونا ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ مرد عورتوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرکے ان کے کام کو عزت دیں۔ یہ سوچیں کہ یہ بھی کسی کی بہن، بیٹی ہے ۔ کام کے ساتھ عورتوں کو غلط پرپوز کرنا ، ہر عورت کو ایک ہی نظریہ سے دیکھنا، اس کی دماغی صلاحیتوں کو اور قابلیت کو نظر انداز کرکے بس اس سے فری ہونے کی کوشش کرنا، اسکے جسم پر نگاہیںگڑانا، اسے چھونے کی کوشش کرنا۔ یہ بیمار ذہن کی علامت نہیں تو اور کیا ہے ۔ کیا مردانہ سماج کی سوچ عورتوں کے بارے میں بدلیگی کہ عورت بھی با صلاحیت ہوتی ہے اور وہ مردوں سے بہتر کام کر سکتی ہے ۔ اگر اسے موقع دئے جائیں کیوں مرد عورتوں کی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کرتا ۔ کیوں وہ عورت کو صرف استعمال کی چیز سمجھتا ہے کیوں وہ عزت سے اسے وہ مقام نہیں دیتا جو اس کا اصلی حق ہے ۔ اگر کوئی لڑکی شرافت سے کام کرکے اپنے گھر کی ذمّہ داریوں کا بوجھ اٹھانا چاہتی ہے تو یہ مردانہ سماج اسکی مجبوری کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور ضرورت مند لڑکیاں سمجھوتے بھی کر لیتی ہیں مگر میں باس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرونگی ۔ اسنے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنا استیفہ ٹائپ کیا اور باس کو ای۔میل میں بھیج کر آفس سے باہر نکل گئی ۔ وہ سوچنے لگی۔
’’جس کو تم کہتے ہو خوش بخت صدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو‘‘