18.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جو اپنی نسل کی حفاظت کرتی ہیں:ڈاکٹر عبدالقدیر

بیدر(سماج نیوز)ملک ہندوستان سے ماہرِ تعلیم کا ایک ایجوکیٹرس ٹور سعودی عربیہ کے شہروںکے علاوہ دبئی کیلئے کیا گیا۔جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر چیئرمین شاہین گرپ آف انسٹی ٹیوشنس بیدر ،جناب اشرف علی صاحب ثنا شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس ہبلی ڈ جناب قیصر خان شاہین اکاڈیمی پٹنہ ،مولانا عبدالحئی ناندیڑ ،افضل شریف شاہین کالج ٹمکور ،جناب روشن ضمیر صاحب شاہین اکاڈیمی کولکتہ ، مفتی عبدالماجد صاحب شاہین جونئیر کالج معین آباد ، ڈاکٹر ارشاد احمد شاہین اکاڈیمی جمشید پور ، جناب محفوظ زری والا شاہین اکاڈیمی مالیگائوں، محمد ایُّوب ساونور ثنا شاہین کالج ہبلی ، اور ڈاکٹر فصیل احمد شاہین اکاڈیمی سری نگرشامل تھے۔مذکورہ بالا ماہر تعلیم نے سعودی عربیہ کے مُختلف شہر مکہ، جدہ ،آباء ،مدینہ،ریاض،دمام ، اور دبئی میں مُختلف تعلیمی پروگرام کا انعقاد کیا ۔پروگراموں کے انعقاد کا مقصد تعلیمی ترقی اور ملک و قوم میں فکری طورپر تعلیمی ترقی کو پروان چڑھانا تھا۔مذکورہ بالا پروگراموں میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب چیئرمین شاہین ادارہ جات بیدر نے اپنے خطاب میں نوجوان میں قربانی کا جذبہ پیدا کرنے پر زور دیا اور کہا کہ نوجوان نسل اگر تعلیم یافتہ ہو تو وہ قوم کبھی کسی بھی میدان میں پیچھے نہیںرہے گی ۔بس نوجوان کو چاہئے کہ ہماری تہذیب، کلچر سے ہرگز دور نہ رہوجائیں بلکہ ہمارے اخلاق و تہذیب کا وہ مُظاہرہ کریںجس سے بڑے اور برادران وطن بھی ہم سے خوش اور متاثرہوں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے جو وہ بیدر آئے تھے اور مجھ سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ کوئی بھی ناندیڑمیں اسکول شروع کرے ۔پھر وہ تین ماہ بعد مجھ سے آکر کہا کہ میں ہی ناندیڑ مںے اسکول شروع کروں گا۔ڈاکٹر عبدالقدیرصاحب نے کہا کہ ہمارے پاس جتنے لوگ آئے ہیں ان میںپانچ افراد سعودی میں 15سال،20سال اور 25سال سروس کرکے آئے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ اشرف علی صاحب کی ہوٹل میں ایک واقع ہوا ۔جب ہبلی میں میں ایک ہو ٹل میں رکا ہوا تھا وہاں پر مجھ سے 40-50 افراد ملاقات کیلئے آگئے۔ انھیں دیکھ کر متاثر ہوئے اور تعلیم کیلئے25کروڑ روپیے کا پروجیکٹ تیار کیا ۔اور الحمد للہ اپنا تعلیمی کاروان و سفر کو آگے بڑھاتے رہے ۔ٹمکور کے افضل شریف صاحب فنکشن ہال (شادی محل) تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھے۔ لوگوں سے مشورہ کرکے بیدر آئے اور شاہین ادارہ جات کے تعلیمی صورتحال کو دیکھ کر متاثر ہوئے اور شادی محل کا ارادہ ترک کرکے تعلیمی محل یعنی مدرسہ قائم کئے جہاں بیٹیاں پڑھ رہی ہیں جہاں ایسا منظر دیکھنے میں آیا کہ بیٹیوں کی حفاظت ، ڈسپلین اور مہذب منظر اور کلچر اور تعلیمی صورتحال دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئیہے ۔کسی نے ایک بڑی یونیورسٹی کا ارادہ کیا ہے ۔ تو کسی نے یہ شاہین جیسے ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ شاہین کے براربر نہیں بلکہ ہر ادارہ شاہین سے ڈبل ہوجائے ۔بلکہ میںیہ چاہتا ہوں کہ شاہین جیسے ادارے پانچ ،سات سو ہمارے ملک ، ہماری قوم کو ہماری نسل کو اس ضرورت ہے۔اسی طرح قیصر صاحب پورے بہار کو سنبھالنے کا ارادہ کررہے ہیں ۔اور ہمارا فوکس بھی تھا اور ہم بہار پر محنت کرنا چاہتے ہیں بس اس کیلئے ماحول بنانا ہوگا ۔مفتی عبدالماجد صاحب معین الدین آباد حیدرآباد میں اقامتی اسکول چلا رہے ہیں جو جدہ میں پڑھے عالمیت کرے اور لندن سے پھر واپس آئے اور ہمارے پورے گروپ کے دینی تعلیم و تربیت کے ہیڈ ہیں ۔اور ساتھ ہی ساتھ معین آباد اور حیدرآباد میں بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں منہمک ہیں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کہا کہ میں ایک دو بچوں کی نہیںبلکہ نسل کی بات کررہا ہوں ۔ اور ہمیشہ کہتا ہو کہ نسل ہی اصل ہے ۔ہماری وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جو اپنی نسل کی حفاظت کرتی ہیں اور تہذیب کی حفاظت کرتی ہیں۔ہمارے اسکولوں کے قائم کرنے کا یہی مقصد ہے ۔قیصر بھائی بتارہے تھے کہآج حالات ایسے ہیں کہ سورہ فاتحہ سے فنکشن شروع ہوتا ہے اور رقص پر ختم ہوتا ہے ۔یہ کلچر ختم ہونا چاہئے ۔کہیں دیکھنے میں یہ آیا کہ بڑے مخلص لوگ بڑے اشتراک سے ادارے کھول رہے ہیں انھیں انگلش میڈیم اسکول شروع کرنا تھا اور انگلش میڈیم ذریعہ تعلیم کے تحت ایک جگہ لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط تعلیمی نظم تھا جہاں کہیں بھی دینی معیار کا منظر نظر نہیں آیا۔بہر حال انھوں نے ہمارے مشورہ سے مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کیا ۔بہرحال ہمیں تہذیب اور بہترین کلچر والے اداروں کو شروع کرنا ہے ۔قیصر بھائی کا کہنا ہے کہ ہم80فیصد بچوں کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔80فیصد اسکول کی تعلیم اور 20فیصد دینی تعلیم ۔میں یہ فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ شاہین کی ابتداء ہی سے اسکول میں اسکول کی تعلیم80فیصد اور 20فیصد دینی تعلیم اور جب ہم نے شعبہ حفظ شروع کیا تو حفظ کی تعلیم80فیصد اور اسکول کی تعلیم 20فیصد۔20فیصداسکولی تعلیم میں ہم بچوں کو ریاضی اور لنگویجس کی بنیادی تعلیم سکھاتے ہیں ۔اسی فارمولہ سے ہم نے بچوں کے تعلیمی معیار کو بڑھایا ۔
ہم نے ایک چھوٹے سے کمرے میں اسکول شروع کیا تھا جس میں15سے17بچوں نے داخلہ لیا تھا۔ ہم35سال کے دوران ہم نے مُختلف نشیب فراز طے کئے مسائل کا سامناکیا اور مُختلف تکالیف کا سامنا کیا مگر اپنے حوصلوں اور مقاصد کو پست ہونے نہیںدیا ،لہذا آج ہمارے بیدر کے ادارے میں 6000ہزار طلباء زیرِ تعلیم ہیں جہاں برادران وطن کے بچوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے پاس تعلیم حاصل کررہی ہیں اورہمارے ہاں قومی یکجہتی کی عمدہ مثال ہے کہ یہاں ہمارے برادرانِ وطن ہمارے کلچر کو دیکھ کر اپنی بیٹیوں کو حصولِ تعلیم کیلئے داخلہ کرواتے ہیں انکا کہنا ہے کہ ہماری بیٹیاں گھر سے زیادہ شاہین میں محفوظ ہیں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کہا کہ ہم نسل کو بنانا چاہتے ہیں ۔بچوں کو ہم ہارڈ ورک ،سنسیر اور اللہ سے ڈرنے والا ،ماں باپ کی قدر کرنے والا ،ایک دوسرے کیلئے ہمدردی محبت اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنے والا شہری بن کر یہاں سے تعلیم حاصل کرکے نکلے ۔ڈاکٹر انجینئر یا آئی پی ایس و آئی اے ایس بننا ضروری نہیں ہے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کہا کہ شعبہ حفظ میں ہم نے 80فیصد حفظ کی تعلیم اور 20فیصد اسکولی تعلیم میں ریاضی کے ساتھ لنگویجس کا فارمولہ اختیار کیا اور الحمد للہ ہمیں اس فارمولہ میں کامیابی حاصل ہوئی۔حافظ بچوں نے عصری تعلیم میں جو تعلیمی مُظاہرہ کیا ہے وہ واقعی قابلِ ستائش ہے۔ہم نے پھر حفظ القُرآب پلس پروگرام شروع کیا جو چار سالہ کورس رہا اور ان چار سال کے کورس میں حفاظبچوں کو عصری تعلیم سے جوڑ کر ہم نے ایک انقلاب برپا کردیا ۔آج ہمارے ادارہ کے حفاظ طلباء ڈاکٹر س ،انجینئرس کے علاوہ مُختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا مُظاہرہ کررہے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کہا کہ بیدرمیں ٹیوشن پڑھنے کا کلچر عام تھا ۔اس کلچر کو ختم کرنے کیلئے ہم نے ہمارے ادارے کے طلباء کے والدین سے سختی کے ساتھ کہہ دیا کہ اگر ٹیوشن پڑھنا ہے تو آپ کے بچوں کو ہم اپنے اسکول میں نہیں پڑھائیں گے۔ہمارا یہ اقدام بہت کامیاب رہااور اس سلسلہ میں ہمیں بڑی کامیاب ملی۔اوردیکھتے ہی دیکھتے بیدر ضلع سے ٹیوشن کا کلچر ختم ہوگیا اور ریاستِ کرناٹک میں بیدر ضلع ٹیوشن فری ضلع ہے۔ہم نے دیکھا کہ کچھ تعلیمی طورپر کمزور بچوں کو خصوصی توجہ دینی چاہئے ا س کیلئے ہم نے منصوبہ بنایا اس پر بھیتجربہ کیا اس سلسلہ میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہم نے ایک بامقصد پروگرام شروع کیا جس کا نام ’’ اے آئی سی یو رکھا یعنی ”اکیڈمک انٹینسیو کیئر یونٹ (AICU)”جس کے تحت ہم نے تعلیمی اعتبار سے کمزور بچوں کیلئے اے آئی سی یو تحت ریاضی اور لنگویجس پڑھانے کا طئے کیا جس میں ایک ٹیچر اور 6طلباء کوپڑھانے کا نظم جس میں بچے کے تعلیمی مُظاہرہ پر اس کو مطلوبہ کلاس میں داخلہ دیا جاتا ہے۔بنگلور کی ایک مسجد کے امامصاحب کے فرزند ابو سفیان جو مدرسہ سے ہمارے یہاں عصری تعلیم کے حصول کیلئے لئے آئے تو کیونکہ وہ عصری تعلیم سے بالکل ہی نابلد تھے۔ابو سفیان نے اے آئی سی یو میں تعلیم حاصل کرنے والے پہلے طالبِ علم ہیں جو آج بنگلور کے بڑے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے بعدکی اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں ایسے سینکڑوں طلباء ہیں جو اے آئی سی یو کے ذریعہ اپنی تعلیم کو مکمل کیا ہے ۔”اکیڈمک انٹینسیو کیئر یونٹ (AICU)” اسکول کے جماعت اول سے 12 ویں کے درمیان ڈراپ آؤٹ اور ممکنہ ڈراپ آؤٹ طلباء کو اعلی معیار کی تعلیم فراہم کرنے کا ایک جدید تصور ہے۔انھوں نے کہا کہ ڈراپ آؤٹ محض ایک تعلیمی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے جو پورے معاشرے کو متاثر کر رہا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کہا کہ ملک بھر سے ایسے مدارس جہاں بچے دینی تعلیم میں مشغول ہیں ان مدارس کے انتظامیہ کے اشتراک سے جس میں مدارس میں مدارس کے انتظامیہ صرفطعام کا اہتمام اور باقی اساتذہ کی تنخواہ اور دیگر اخراجات شاہین ادارہ جات بیدر کی جانب سے ہو ںگے۔ہم نے ’’مدرسہ پلس ‘‘پروگرامشروع کیا ۔ملک کے معروف و ممتاز علماء کرام و دانشور حضرات کی تائید و ستائش کے ساتھ شاہین ادارہ جات بیدر نے عصری تعلیم سے نابلد حفاظ،علماء /حافظہ و عالمہ اور تعلیم منقطع کرنے والے یتیم بچوں کو عصری تعلیم سے جوڑنے کے منصوبہ کے تحت ’’مدرسہ پلس‘‘ پروگرام آغاکیا۔ملک بھر سے تقریبا پانچ ہزار حفاظ و علماء کرام کو مفت تعلیم فراہم کرنے کا ہمارا ہدف تھا مگر ہمیں ابتداء میں صرف دوہزار تین سے زائد طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔اس کے علاوہ 180بچوں کو پری NEETکی کوچنگ دہم تک این سی آر ٹی کے تحت تیار کیا جارہا ہے ۔آخر میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے شعبہ اصلاح معاشرہ کے زیر اہتمام ’فکری و تہذیبی ارتداد، اسباب و حل‘ کے عنوان سے موجودہ حالات کے پیش نظر اولاد کی صحیح تربیت کی جاسکے اور مرتد ہونے سے بچانے کی تدابیر سے عوام کو آگاہ کیا جاسکے ۔ ’’علماء کرام کی جانب سے سماج میں پھیلی برائیوں کو ختم کرنیکی کوششیں ہورہی ہیں لیکن عوام میں ان برائیوں کو ختم کرنے کی غرض سے عملی کوشش نہیں دیکھنے کو مل رہی تھی جس کی وجہ سے اس ذمہ داری کو نبھانے کا خیال آنے پر ہم نے عوام میں جاکر مختلف مقامات کا دورہ کیا اور ان مسائل کا پتہ لگانے کی کوشش کی جس سے قوم اور دین کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ہم نے دیکھا کہ لوگ شادیوں میں بے جا رسومات ،دولت کا بے جا استعمال کررہے ہیں ۔اگر ہم نکاح کو آسان و مسنون بنائیں گے تو یقناً یہ رسومات اور دولت کی بے جا فروانی بند ہوجائے گی ۔اس کا طریقہ یہ کہ ایسی تقریبات کا ہم بائیکاٹ کریں جہاں اس طرح رواج چلتا ہے۔چاہے وہ ہمارے رشتہ دار ہوں یا پڑوسی ہوں ہم ا سطرح کی تقریبات میں جانے سے پرہیز کریں ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے نوجوان نسل لباس سے لے کر تقریبات کو ماڈرن کردیا ہے ۔ہمیں اپنی نسل کو بچانا ہے ۔جو قوم تعلیم سے زیادہ خرچ اپنی اولا کی شادیوںمیں کرتی ہیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرتی ۔

Related posts

اروند کجریوال نے راون کا پتلا نذر آتش کیا

جھوٹ پر سچ کی جیت کا دیا پیغام :

www.samajnews.in

میانمار حکومت نے گاؤں پر برسائے بم،100سے زائد ہلاک،درجنوں زخمی

www.samajnews.in

مساجد کے حقوق کی ادائیگی میں مسلمانوںکی کوتاہی تشویشناک :مولانا محمد رحمانی

www.samajnews.in