18.1 C
Delhi
فروری 11, 2025
Samaj News

کرتارپور: سرحدوں کی فکر چھوڑ کر اپنوں سے ملنے آتے ہیں لوگ

سحر بلوچ

اسلام آباد: تین سال پہلے جب گرودوارہ کرتارپور صاحب کو باقاعدہ طور پر کھولا گیا تھا تب جانے کا اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ اس وقت تقریباً ہر نیوز چینل، اخبار اور یوٹیوب پر یہ خبر عام ہو چکی تھی کہ اتنے برسوں سے بند اس گرودوارے کو آخر کار کھولا جا رہا ہے۔یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ کیسے یہ مقدس جگہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ سکھ برادری کے لیے بھی یہ ایک بڑا موقع تھا کہ وہ سرحد پار گرودوارے بھی آ سکیں گے اور کئی برسوں سے بچھڑے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے بھی مل سکیں گے۔اس وقت جانے کی اتنی خواہش اس لیے بھی نہیں ہوئی کہ انڈیا میں چند سال پہلے بنائے گئے دوست اب بیرونِ ملک جا چکے تھے۔ کام کا انبار بڑھتا چلا جا رہا تھا اور اب تو کوڈ لاک ڈاؤن بھی مکمل طور پر ہٹ چکا ہے تو ہر جگہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر جانے کا دل نہیں کیا۔اس سال جب پاکستان آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہوا تو دفتر میں بتایا گیا کہ لوگوں سے بات کر کے یہ جاننا ہے کہ آزادی کے ان 75 برسوں میں کیا عام پاکستانی خود کو ملک کا حصہ سمجھتے ہیں؟کیا اب بھی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے یا اب بھی زندگی ہجرت میں گزر رہی ہے؟ اور ایک سوال یہ بھی کہ جن رشتے داروں کو چھوڑ کر نئے ملک میں آئے تھے ان سے اتنے سالوں میں کبھی بات کر کے پوچھا کہ وہ کس حال میں ہیں؟ان سوالوں میں سے چند کا جواب کرتارپور میں ہی مل گیا۔گرودوارہ شری دربار صاحب کرتارپور لاہور کے نزدیک ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ میں واقع ہے۔ لاہور سے محض دو گھنٹوں سے بھی کم وقت میں یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے گرودوارے کا بورڈ نظر آیا جس کے باہر سکیورٹی گارڈ نے رکنے کو کہا۔جتنی دیر ہم لوگ یہاں کھڑے رہے اتنی دیر میں یہاں سے تقریباً چھ سے سات پِک اپ ٹرک، گاڑیاں اور موٹرسائکلیں گئیں تو لگا شاید اندر بہت رش ہو گا۔ تھوڑی بہت پوچھ گچھ کے بعد جب گارڈ نے جانے کو کہا تب پتا چلا کہ یہ تمام تر گاڑیاں گرودوارے میں کام کرنے والوں کو چھوڑنے کے لیے آئی تھیں۔یہاں عام دنوں میں بہت رش ہوتا ہے لیکن اس دن نہیں تھا۔ پارکنگ لاٹ تک جب تک پہنچے تو بمشکل تین گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔نیلے رنگ کی ڈوری میں لپٹا سکیورٹی پاس لے کر جب میں صحن میں پہنچی تب کچھ دیر کے لیے آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ سفید پتھروں کا بنا ہوا یہ گرودوارہ اتنے بڑے صحن میں جس قدر خوبصورت لگ رہا تھا اسے یہاں بیان کرنا کافی مشکل ہو جائے گا۔اس وقت صبح کے نو بج رہے تھے۔ اور اکا دکا لوگوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہاں ہوا میں دریائے راوی کی خوشبو آتی ہے۔ میں نے کراچی میں بڑے ہوتے ہوئے سمندر کی خوشبو (یا بدبو) تو محسوس کی ہے لیکن پہلی بار پاس بہتے دریا کا احساس ہوا۔مجھے بتایا گیا کہ انڈیا کی جانب سے آنے والی یاتریوں کی بس کچھ ہی دیر میں ڈیرہ بابا نانک سے نکل کر چند قدم کے فاصلے پر پاکستان میں بنے دربار صاحب کرتارپور کی طرف آئے گی۔ اور ان تمام یاتریوں کو پیلے رنگ کی ڈوری والا پاس پہننے کو دیا جائے گا جس کے ذریعے انتظامیہ انڈیا اور پاکستان سے آنے والے یاتریوں کے درمیان فرق کر سکے گی۔
یہاں جو چند لوگ موجود تھے وہ بھی انڈیا سے آنے والی بس کے منتظر تھے کیونکہ زیادہ تر یاتریوں کی تعداد وہیں سے ہوتی ہے اور انتظامیہ کے مطابق عام دنوں میں بھی دربار میں تقریباً 400 یاتری صرف انڈیا سے آتے ہیں، اور باقی پاکستان سے جو دوپہر سے شام کے درمیان دربار میں رہتے ہیں۔جب تک مزید لوگ آتے تب تک سیڑھیوں پر بیٹھ کر دربار سے آنے والی کیرتن یا دعا کی آواز پر غور کرنے کا سوچا۔یہ جگہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک ایسے جزیرے جیسے لگتی ہے جہاں لوگ کچھ دیر کے لیے اپنے تمام تر مسائل اور سرحدوں کا خیال چھوڑ کر صرف ایک دوسرے کی سننے آتے ہیں، کچھ دیر بیٹھ جاتے ہیں اور وقت ختم ہونے پر واپس اپنی اپنی سرحدوں کے اندر چلے جاتے ہیں۔یہاں دو بھائی ایسے بھی ملے جو 23 سال بعد مل رہے تھے لیکن ایک دوسرے کو والہانہ انداز میں گلے لگانے کے بعد وہ کافی دیر تک ایک دوسرے کے برابر خاموش بیٹھے رہے۔ اور اس دوران دور سے صرف کیرتن کی آواز گونجتی رہی۔سِکھ مذہب یا فلسفے کی اگر بات کریں تو اس کا آغاز 15 ویں صدی میں انڈین برصغیر کے پنجاب میں ہوا تھا جہاں آج بھی سِکھ برادری کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔سکھ روایت کے مطابق اس مذہب کی بنیاد گُرو نانک نے رکھی تھی جن کے بعد اسی سلسلے میں نو اور گُرو آئے۔سکھ برادری کا ماننا ہے کہ یہ 10 انسان بے شک مختلف جسم رکھتے تھے لیکن ان کی روح ایک ہی تھی، جس کے تحت انھوں نے مذہب میں بھی ایک ہونے کا سبق دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گرو نانک نے 1504 میں کھیتی باڑی کر کے اور لنگر بانٹ کر کرتاپور کا شہر آباد کیا تھا جہاں وہ 18 سال رہے۔
گرو نانک ستمبر 1539 میں اپنی وفات تک کرتارپور میں ہی رہے۔ اور سِکھ مانتے ہیں کہ کرتارپور صاحب دربار کی بنیاد اسی جگہ رکھی گئی ہے جہاں گرونانک کا انتقال ہوا تھا۔ کرتارپور کو انڈین پنجاب میں کرتارپور راوی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انڈیا کے شہر جالندھر میں ایک قصبے کا نام بھی کرتارپور ہے۔ تو کسی قسم کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ نام استعمال کیا جاتا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
انڈین پنجاب میں کہا جاتا ہے کہ تقسیمِ ہند دراصل تقسیمِ پنجاب اور بنگال تھی۔ اور مؤرخین اور ماہرین کا خیال ہے کہ اسی لیے دونوں ملکوں میں بٹے ہوئے پنجاب میں اپنے ہمسایوں سے ملنے کی خواہش زیادہ ہے۔بٹوارے کے بعد کسی بچھڑے ہوئے خاندان کے جذبات کا اندازہ لگانا خاصا مشکل کام ہے۔ یہ صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے خاندانوں نے، پرکھوں نے تقسیم سہی ہے۔نومبر 2019 میں باقاعدہ طور پر کھلنے سے پہلے یہ جگہ ویران تھی۔ یہاں پر لاہور کے ایک پرائمری سکول ٹیچر اقبال قیصر پہلی مرتبہ 1980 کی دہائی میں آئے تھے۔ اُنھوں نے کرتاپور کا دورہ کرنے کے بعد مختلف گرودواروں پر ایک کتاب لکھنے کا کام شروع کر دیا۔
اقبال قیصر نے بتایا کہ 1947 میں ان کا گھرانہ انڈین پنجاب کے ضلع فیروزپور سے ہجرت کر کے قصور پہنچا تھا۔ ’میری پیدائش اس کے 10 سال بعد قصور میں ہوئی۔ میرا پورا خاندان زراعت کے پیشے سے جڑا تھا اور ان میں زیادہ تر نے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔‘ان کے مطابق ان کے والدین نے بتایا تھا کہ پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہوئے ان کے قافلے پر حملہ ہوا تھا جس میں ان کی پھپھو زینب بری طرح زخمی ہوئی تھیں۔’ان کا پیٹ چاک کیا گیا تھا، اس حملے میں میرے والد کی انگلی کٹ گئی تھی جس پر اس وقت لوگوں نے کپڑا باندھ کر انھیں چلتے رہنے کو کہا۔ قصور میں مہاجرین کے کیمپ میں داخل ہوتے ہی میری پھپھو کا انتقال ہو گیا۔‘اسی طرح انھوں نے بتایا کہ ان کی دادی کے کزن بٹوارے کے دوران انڈیا میں رہ گئے۔ ’آج بھی ان کی اولاد انڈیا میں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وقت کے ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں۔ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں اپنے ہمسائے نہیں بدل سکتے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جب بھی جنگ ہوئی یا ہو گی تو کسی اور کو کچھ نہیں ہو گا لیکن دونوں جانب پنجاب مارا جائے گا۔‘
اقبال قیصر کی کتاب ہسٹوریکل سکھ شرائنز اِن پاکستان کا تین زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ پنجابی میں یہ کتاب ’پاکستان وِچ سِکھاں دیاں تاریخی پوتر تھاواں‘ کے نام سے بھی دستیاب ہے۔ اس کتاب کا مقصد تب پورا ہوا جب کینیڈا اور امریکہ میں رہائش پذیر سِکھ برادری نے اقبال قیصر کے لیے امداد بھیجنی شروع کی لیکن انھوں نے اس امداد کو استعمال کر کے پنجاب کھوج گڑھ کی بنیاد رکھی۔کرتارپور دربار میں ملنے والے انڈین اور پاکستانی سِکھ ایک دوسرے سے ملنے پر خوش ہیں۔ لیکن یہ جگہ صرف سِکھ برادری کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ملنے کا ذریعہ بن چکی ہے جو ویزا لگوا کر انڈیا نہیں جا سکتے۔
پاکستان میں دربار صاحب کرتارپور کو سِکھ برادری کے لیے کھولنے کے کئی حامی رہے ہیں۔ اقبال قیصر نے بتایا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں دربار صاحب کرتارپور کے لیے خاص طور سے کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جس کو بعد میں پربندھک کمیٹی کا نام بھی دیا گیا تھا۔اسی طرح مصنف اشفاق احمد کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سِکھ برادری کے لیے کرتارپور صاحب دربار کھولنے کے حامی رہے اور پاکستان میں بننے والی حکومتوں پر زور ڈالتے رہے کہ ان کے لیے خاص رعایت کی جائے۔یہاں آئے چند یاتریوں کو یہ خوف بھی تھا کہ ان کے انڈین پاسپورٹ پر پاکستان کا انٹری سٹامپ لگنے سے انھیں پھر برطانیہ اور امریکہ کا ویزا نہیں ملے گا۔ لیکن کرتارپور آنے کے لیے الیکٹرانک ٹریول پاس ملتا ہے جس کے نتیجے میں انڈین شہری چھ مہینے بعد پھر پاکستان آ سکتے ہیں اور پاکستانی جب چاہیں یہاں آ سکتے ہیں۔اب میری نگاہ جب گھڑی پر پڑی تو چار بج چکے تھے۔ اس دوران میں نے ایک آخری چکر اس کھلے صحن کا لگایا جہاں اب بھی پاکستانی اور انڈین شہری ایک دوسرے سے میوزک اور خاص طور سے پنجابی موسیقار سدھو موسے والا کی موت کا افسوس کر رہے تھے۔دوسری جانب انتظامیہ کا ایک فرد پاس کھڑے بچے کو تنبیہ کر رہا تھا کہ یہاں ٹِک ٹاک بنانا سختی سے منع ہے جبکہ آس پاس انڈیا اور پاکستان سے آئے لوگ جانے سے پہلے آخری لمحات میں ساری باتیں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔یہاں سے جاتے ہوئے اقبال قیصر کی بات میں ذہن میں رہ گئی کہ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں لیکن اپنے ہمسائے اور اپنا مشترکہ ماضی نہیں بدل سکتے۔ ہاں اگر کچھ دیر کے لیے ایک بین الاقوامی بارڈر پر آپ کو ملنے کا موقع اور پرانی باتیں یا یادیں دہرانے یا بھلانے کا موقع مل رہا ہے، تو اس میں کیا برائی ہے؟

Related posts

کووڈ ویکسین سے بڑھا ’’ہارٹ اٹیک اموات‘‘ کا خطرہ

www.samajnews.in

عام آدمی پارٹی جلد ہی قومی پارٹی بن جائے گی:اروند کجریوال

www.samajnews.in

جامعہ سید نذیر حسین محدث دہلوی میں 75 واں جشن یوم جمہوریہ جوش وخروش کیساتھ منایا گیا

www.samajnews.in