مولانا محمد ممشاد علی صدیقی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور ان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور روئے زمین کی خلافت سے سرفراز کیا۔اپنے احکام کو دنیا میں نافذکرنے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کا انتخاب کیا جو تمام کے تمام انسان ہی تھے۔گویا اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو ہر اعلیٰ وارفع مقام کا مستحق ٹھہرایا ہے بس ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ یہ انسان اپنی قدر ومنزلت کو پہچانتے ہوئے وہی راہ وروش اختیار کرے جس سے ان کی زندگی صحیح سمت پر گامزن رہ سکے اور رب کی رضاء وخوشنودی حاصل رہے۔اللہ تعالیٰ نے جہاں آخری نبی مکرم جناب محمد مصطفیﷺ کے ذریعہ دن ورات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کیں اور سکھاتے ہوئے ان کی ادائیگی ہر صاحب بلوغ وعقل والے پر فراض قرار دیا وہیں اور بھی دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ صاحب مال پر زندگی میں ایک بار ایک نہایت متبرک ومبارک عمل کرنے کا بھی حکم دیا جن کو دنیا حج کی نام سے جانتی ہے کیونکہ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر (کعبہ)تک پہنچ سکتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کی روش اختیار کی تو (وہ جان لے کہ) اللہ سارے عالم سے سے بے نیاز ہے (آل عمران:۷۹) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! خدا نے تم پر حج فرض کردیا ہے ،پس تم حج کرو۔اقرع ابن حابس ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ،یا رسول اللہ ﷺ کیا ہرسال ۔آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہرسال حج فرض ہوجاتا، تو تم اسے ادا نہ کرسکتے ،حج زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر فرض ہے اور جو ایک سے زیادہ کرے گا وہ نفل ہے (احمد نسائی)
اسلام کی بنیادی پانچ ارکان ہیں ان ہی میں کاپانچواں رکن عظیم حج ہے۔ تذکرۂ حج قرآن مجید میں ایک بار نہیں بلکہ بیس بار آیا ہے۔جن کے ذریعہ ان کی اہمیت وخوبی محسوس کرسکتے ہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کو جو عمل جتنا محبوب ہوتا ہے ان کا تذکرہ اتنے ہی اہتمام والتزام کے ساتھ کرتے ہیں اور قرآن حکیم میں بار بار یعنی بیس بار اس کا تذکرہ کرنا یقینا ایک انسان کے لئے معنی رکھتا ہے۔بندے کو جب اپنے خالق و مالک سے غایت درجہ اشتیاق ہوجاتاہے تو وہ تقرب الٰہی کا ذریعہ ڈھونڈتا ہے۔ رب کی رضا بندے کو حج ہی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ حج مؤمن کیلئے راحت جان اور روح کی تسکین ہے۔ حقیقت حج یہ ہے کہ ایک بڑی جماعت ایک خاص زمانے میں ایک خاص مقام پر حاضر ہوکر ان لوگوں کے حال معلوم کرے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ۔ جہاں اللہ کی خاص خاص نشانیان ہیں ۔ جہاںپراہل ایمان شعائر اللہ کی تعظیم میں سرشار ہوکر گڑگڑا کر روئے، بخشش و کرم کے طلبگار ہوکر حاضر بارگاہ پروردگار ہوئے۔ اللہ نے اپنے خلیل سے فرمایا کہ اور لوگوں کو حج کی عام اجازت دو۔ ابراہیم ؑ نے اللہ سے کہا کہ میری آواز کہاں تک جائیگی۔ اللہ نے کہا کہ تم آواز لگائو ، ہمارا کام آواز کو پہنچانا ہے،ابراہیم ؑ نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر آواز لگائی ۔ اے لوگو! اللہ نے ہمکو حج کا حکم دیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تم کو ثواب دیکر جنت کا حقدار بنائے اور دوزخ کی آگ سے بچائے ۔ لہذا تم حج کرو،اس آواز کو اللہ نے مردوں کے پیٹھوں میں، مائوں کے رحموں میں رہنے والوں تک پہنچایا اور انہوں نے لبیک کہا۔ عالم ارواح تک یہ آواز پہنچی اور جنہوں نے لبیک کہا ان کو حج نصیب ہوا۔جتنی بار کہا اتنی بار حج مقدور ہوگیا ۔قیامت اس وقت تک واقع نہ ہوگی جب تک اہل ایمان حج کرتے رہیں گے ۔ہمیں چاہئے کہ ہم ضرورگنجائش پانے کے بعد اس طرف خصوصی توجہ رکھیں اور حج کریں تاکہ ان سے حاصل ہونے والے دوجہاں کی خوبی کے حقدار بن سکیں۔
شریعت محمد عالم ﷺ میں حج کی فرضیت 9ھ میں ہوئی ۔ آپ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو امیر حج بنا کر تین سو اصحابؓ کے ساتھ روانہ فرمایا ۔ ابوبکر ؓ نے لوگوں کو حج کروایا۔ علیؓ کے ذریعہ سورۃ التوبہ کی 40آیا ت لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور یہ بات بھی بتلادی گئی کہ آئندہ سال کوئی مشرک کعبہ میں داخل نہ ہوگا ۔ جاہلیت کے رسومات حج سے نکال دئیے گئے ۔ آپ ﷺ دنیا سے پردہ فرمانے سے تین ماہ قبل سوا لاکھ اصحابؓ کے ہمراہ حج ادا فرمایا ۔26ذیقعدہ 10 ھ بر وز ہفتہ آپ ﷺ مدینہ سے حج کے لئے روانہ ہوئے ، نمازیں قصر کیں۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر حج قران کی نیت سے احرام باندھا ۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ تاحد نظر لوگوں کا ہجوم تھا اور آگے لوگ ملتے جاتے ۔فتح مکہ کے وقت آپ ﷺ نے جہاں جہاں قیام فرمایا تھا محبانِ رسول ؐنے وہاں وہاں مسجد یں تعمیر کردی تھیں۔سفر حج کے دوران آپ ﷺ ان مساجد میں نمازیں ادا فرماتے جاتے۔4 ذی ا لحجہ 10ھ آپ ﷺ چاشت کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ حرم شریف میں داخل ہوکر تحیۃ المسجد ادا فرمائی، پھر طواف قدوم ادا فرمایا آب زم زم نوش فرمایا اور اپنے سرپر ڈالا۔آب زم زم دنیا کا سب سے زیادہ پاک پانی ہے ،جس میں بھوکوں کے لئے آسودگی اور بیماروں کے لئے شفاء ہے ، جس نیت سے پیوگے انشاء اللہ تمنا پوری ہوگی۔8ذی الحجہ چاشت کے وقت منیٰ کا قصد کیا جمعہ کے دن طلوع آفتاب کے بعد عرفات کو روانہ ہوئے ۔ اپنی ناقہ پر سوار ہوکر جامع ترین خطبہ ارشاد فرمایا۔حج کے ارکان کی تعلیم فرمائی ۔ قربانی دراصل حاجی کی جان کی قربانی ہے جسے اللہ نے اپنے کرم سے جانور کی قربانی میں بدل دیا ۔ قربانی تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔جانور کے ہر عضو کے بدلے قربانی دینے والے کا عضو جہنم سے بچا رہیگا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حج مبرور کا بدلہ تو بس جنت ہے (بخاری ) ساتھ ہی ساتھ استطاعت کے باوجود جو حج نہ کرے اس کے لئے وعیدآ ئی ہے۔ ابوامامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا نبی اکرم شافع محشر ﷺ نے کہ جسکو نہ کسی صریح ضرورت نے روکا ہو اور نہ کوئی مرض اور نہ کسی ظالم حکمراں نے۔ پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہود ہوکر مرے یا نصرانی بنکر (بیہقی) حضرت عمر ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا جب جہاد سے فارغ ہوتو حج کے لئے کجاوے کسو کیونکہ حج بھی ایک جہاد ہے۔ ایک موقع پر آقا ﷺ نے فرمایا بچے ،بوڑھے ،ناتواں اور عورتوں کے لئے حج و عمرہ ہی جہاد ہے۔حاجی حضرات اس طرح لوٹتے ہیں جیسے وہ آج ہی اپنے ماں کے شکم سے تولد ہوئے ہوں ،یعنی ان کا نامہ اعمال گناہوں سے بالکل پاک ہے۔ اب حاجیوں کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ باقی ماندہ زندگی گناہوں سے پاک رہے اور اپنے قول و عمل سے ما حول و معاشرہ کو بھی ہر برائی سے بچائے۔دنیاوی مال ودولت ،چاہ و حشمت انسان کے خاک آلود ہونے کے بعد دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور اس کا استعمال زندہ لوگوں میں سے کرتے ہیں لیکن جب ایک بندہ اپنے جائز مال کو حج جیسی اہم عبادت میں لگادیتا ہے تو اس کیلئے یہی مال باعث رحمت وسعادت بن جاتی ہے۔اس لئے حج تو ہر صاحب مال ودولت پر فرض ہے ہی اس کو ادا کرنے میں گوتاہی اور کاہلی کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے ان کو فوری ادا کرے ۔کیا معلوم آئندہ نصیب ہو کہ نہ ہو۔ موجودہ دور میں اسلامی بیداری کی لہر نے جہاں دین کے دیگر شعبوں میں احکام اسلامی کے ا لتزام کو رواج دیا ہے وہیں ذوق عبادت کو سب سے کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ حضور اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ گزوہ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے۔اس کو چھوڑ کر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میںشیطان بہت ذلیل ہورہاہو،بہت راندہ پھر رہاہو،بہت حقیر ہورہا ہو،بہت زیادہ غصہ میںبھر رہاہو اور یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ عرفہ کے دن میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نازل ہونا،بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتاہے۔ ( مشکواۃ)ابن شماسہؒ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر وبن عاص ؓ کے پاس حاضر ہوئے۔ان کا آخری وقت تھا۔حضرت عمرو بن عاص ؓ اس وقت بہت دیر تک روتے رہے۔اس کے بعد اپنے اسلام لانے کا قصہ بیان فرمایا اور فرمانے لگے کہ ’’جب اللہ جل شانہ نے میرے دل میں اسلام لانے کا جذبہ پیدا فرمایا تو میں حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ بیعت کیلئے دست مبارک عطاء فرمائیں میںمسلمان ہوتا ہوں۔ حضور ﷺ نے جب اپنا دست مبارک آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ کیا؟ میں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ میں ایک شرط کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ اللہ جل شانہ میرے پچھلے گناہ معاف کردے۔ حضور ﷺ نے فرمایا عمرو!تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام ان سب گناہوں کو ختم کردیتا ہے جو کفر کی حالت میں کئے گئے تھے اور ہجرت اس سب لغزشوں کو ختم کردیتی ہے جو ہجرت سے پہلے کی ہوں اور حج ان سب قصوروں کا خاتمہ کردیتا ہے جو حج سے پہلئے کئے ہوں‘‘۔ ( مسلم)حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ دائیں اور بائیں جو پتھر، درخت،ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اس طرح زمین کی انتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتاہے۔ ( ترمذی،مشکوٰۃ)ایک حدیث میں آیا کہ وہ شخص بہت بڑا گناہ کار ہے جو عرفات کے میدان میںبھی یہ سمجھے کہ میری مغفرت نہیں ہوئی۔(اتحاف)
خصوصی طورپر ہر عازمین کو اپنے لئے اور امت مسلمہ کیلئے اور عمومیت کے ساتھ سارے اولاد آدم کیلئے دعائوں کا اہتمام کریں تاکہ ہر شخص جو دشواریوں اور آزمائشوں میں گھرے ہوئے ہیں ان کو ہر طرح کی راحتیں میسر ہوسکے۔کیونکہ عازمین حج اپنے اعمال وکردار کے اعتبار سے رب العامین کے قربت حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر جب رب سے فریاد کرتا ہے تو مالک حقیقی ان کی دعائوں کو رد نہ کرتے ہوئے قبولیت کے مقام ومرتبہ عطاء کرتاہے۔مذہب اسلام میں دعاء کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔جس نے بھی ان کا اہتمام کرلیا یقینا رب کے دربار سے خیر حاصل کرلیا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا پھر ان کی رشد و ہدایت کیلئے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ۔اس سنہرے سلسلہ کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں ، جنہوں نے ہر مسئلہ میں اپنی امت کو واضح رہنمائی عطا فرمائی اور انہیں ایسے دین پر چھوڑا کہ جس کی راتیں بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔جہاں آپ ﷺ نے نماز ،روزہ،حج،زکوٰۃ ودیگر عبادات کا طریقہ سکھایا وہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائی کہ ہر حال میں اسے ہی پکارا جائے جو ہر بے کس اور لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور جب موقع ہوحج کا اور انسان سراپا رب کی رضاء کی خاطر گھر بار کو چھوڑ کر حج کے ارکان کو خشوع وخضوع اداکرتا ہے تو یقینا رب ان کی فریاد کو رائیگاں نہیں جانے دیگا۔ فرمان الٰہی ہے : ’’کون ہے جو بے قرار و لاچار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟ (اور کون ہے جو)تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی (یہ کام کرنے والا )ہے؟تم لوگ کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو ‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا عبادت ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :الدعاء ھوالعبادۃ (احمد،ترمذی)اب جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے گویا کہ وہ اپنے رب کی عبادت سے اعراض کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔(سورہ مؤمن :۰۳/۰۶)حج کرنے کے بہت فوائد ہیں حج گناہوں کو اس طرح دھو ڈالتاہے جس طرح پانی میل کو صاف کردیتاہے۔حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں بقیہ تمام عبادات کی روح موجود ہے ۔مثلازکوٰۃ میں مال خرچ کیا جاتاہے۔ روزہ میں نفسانی خواہشات پر قابو پایاجاتاہے جس حج میں بھی ایسا کیا جاتاہے۔حج میں نماز باقاعدگی سے تکبر اورلیٰ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔حج کے موقع پر مسلمانوں کے عالمگیر اتحاد کا روح پر ور نظارہ دیکھنے کو آتاہے ۔مثلا مختلف رنگ ونسل،زبا،قوم اور وطن کے لوگ ایک ہی لباس اور ایک طریقہ سے ذکر الٰہی میں مشغول نظر آتے ہیں۔
بانی وناظم ادارہ مبین العلوم قاسمیہ:9030825540
آزاد صحافی:mumshadrahi@gmail.com-9866207131