نئی دہلی، سماج نیوز،(مطیع الرحمٰن عزیز) کہتے ہیں کہ انسان خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے۔ پیسے کماتا ہے اور اپنی صحت برباد کر لیتا ہے۔ پھر اسی کمائے ہوئے پیسے سے اپنی صحت دوبارہ واپس لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹھیک یہی مثال تلنگانہ کے وقف پراپرٹی پر براجمان آفیسر خواجہ معین الدین کی ہے۔ جس کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ ہیرا جویلرس کی پراپرٹی پر اپنے سالے کے نام جعلی دستاویز بناتا ہے۔ پھر اپنے سالے کو اپنی ایک چار ایکڑ زمین کے بعد ہیرا جویلرس کا بنگلہ اپنے نام ٹرانسفر کرا لیتا ہے۔ اب جب کہ تلنگانہ وقف پراپرٹی معاملے پر آفیسر بن کر براجمان بدعنوان شخص ناجائز طریقے سے ہتھیائے گئے بنگلہ پر مرکزی حکومتوں جیسے پی ایم او۔ وزیر خزانہ۔ انفارسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور وزات اقلیتی امور کے دبش کے بعد خواجہ معین الدین تلنگانہ اسٹیٹ اور حیدر آباد شہر کے سرکاری آفیسران کو رشوت دے کر کارروائی فائل کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کے لئے رشوت تقسیم کرتے ہوئے پھرتا ہے۔ مقامی تھانہ جہاں پر کئی فائلیں ہیرا جویلرس کے بنگلے پر قابض بدعنوان خواجہ معین الدین پر کارروائی کے آتی ہے تو جواب میں رشوت دینے کا معاملہ کو اس شک میں مزید اور تقویت حاصل ہو جاتی ہے کہ مرکزی اداروں کے حکم کے باوجود چیف سکریٹری آف تلنگانہ کارروائی کیوں نہیں کرتی ہے۔ مگر تلنگانہ چیف سکریٹری نے اب تک کوئی کارروائی نہ کرتے ہوئے مرکزی دفاتر کے کارروائی خطوط کے جواب ابھی تک پیش نہیں کیا ہے۔
اس معاملے میں محض اتنا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ خواجہ معین الدین نے ایک عمیر نامی بدمعاش جو ہیرا جویلرس کے خالی پڑے بنگلے پر پہلے قابض ہوا تھا۔ اس کو پچاس لاکھ روپیہ دے کر بنگلہ خالی کرا لیتا ہے۔ بنگلہ خالی کراکے ای ڈی بورڈ لگے ہونے کے باوجود خواجہ معین الدین متعلقہ دفتر سے ایک نوٹس ہیرا جویلرس کے اس پتے پر روانہ کراتا ہے جہاں پہلے سے کوئی موجود نہیں تھا۔ اور موجود ہوتا بھی کون جب عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ زیر گرفتاں تھیں اور دیگر اہل خانہ سازش کاروں کے چنگل سے بچنے کے لئے اپنی عافیت کے تلاش میں در بدر بھٹک رہے تھے۔واضح رہے کہ ملک میں ہیرا گروپ آف کمپنیز وہ پہلی کمپنی ہے جس کی سی ای او نے اپنی گرفتاری بطور جانچ پڑتال خود پیش کی۔ اس کے باوجود اعزا اقربا اور خاندان کے 39افراد پر مقدمات درج کرکے ان کی گرفتاری لینے کیلئے جگہ جگہ تلاش کیا ۔ ان 39ایف آئی آر ہوئے لوگوں میں ایک 9سال کی بچی اور 80سال کی خاتون بھی موجود تھیں۔اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو ملک کی دیگر کمپنیوں میں جن پر جانچ پڑتال کی کارروائی لازم لائی گئی ، اس پر دوسرے کسی شخص پر کوئی ایف آئی آر نہ ہوئی اور نہ ہی کمپنی کو بند کیا گیا۔ جب کہ ہیرا گروپ کے ہر دفتر پر اور کاروباری کمپنی پر سرکاری تالے لگا دئے گئے اور متعلقہ ہر شخص کو جگہ جگہ تلاش کیا گیا۔
ہیرا جویلرس بنگلہ قبضہ کرنے کے معاملے میں بھی حکومت، انتظامیہ ،نیتا ،یہاں تک کہ عدلیہ سے لے کر پوسٹ مین تک کو رشوت کھلا کر خواجہ معین الدین نے اپنے حق میں کام لیا۔ متعلقہ دفتر سے تین لیٹر جاری کرکے پوسٹ مین سے جلد از جلد عدم دستیابی کی مہر لگوائی گئی۔ اور عدم دستیابی کی پوسٹ مین کی مہر لگی ہوئی رسید پے درپے تین بار دہراتے ہوئے عمل میں لایا گیا۔ نوٹس کا عدم دستیابی مہر بند لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا اور جج صاحب سے پراپرٹی پر قبضہ کے لئے آرڈر بھی آنا فانا جاری کرائی گئی۔ توجہ میں رہے کہ یہ سب جگاڑ بازیاں اس وقت کی جا رہی تھیں جب ہیرا گروپ سی ای او زیر حراست تھیں اور ان سے متعلقہ تمام پراپرٹیز پر ای ڈی کے بڑے بڑے بورڈ گاڑ دئے گئے تھے۔ جبلی ہل ایم ایل اے کالونی کی ہیرا جویلرس کے اس بنگلہ پر بھی ای ڈی بورڈ چسپاں تھا ۔ ان سب کے باوجود خواجہ معین الدین نامی تلنگانہ وقف پراپرٹی کا عہدیدار اپنے ناپاک ارادوں کو انجام دے رہا تھا۔
کل ملا کر سو کی سیدھی بات یہ ہے کہ خواجہ معین الدین نامی بدعنوان تلنگانہ کے وقف پراپرٹی کو روز بروز سودے بازی کے ذریعہ فروخت کرنے والا شخص اب خود ہی اپنے دام فریب میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ خبر محو گردش ہے کہ ای ڈی آفیسران خواجہ معین الدین کے گھر پر دبش دے چکے ہیں، مگر پیشہ سے وکیل اسکی بیوی نے ای ڈی آفیسروں کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا۔ دوسری خبر کے مطابق خواجہ معین الدین کو تلنگانہ وقف معاملے سے برخاست کرنے کے قواعد تیز ہو گئے ہیں۔ کارروائی اور بدکرداری کے عوض خواجہ معین اپنے سابقہ ریکارڈ پر پھر سے ذلیل و خوار ہوگا جیسے ٹریفک پولس اہلکار ہونے کے وقت منی لانڈرنگ کے معاملے میں مجرم قرار دیتے ہوئے نوکری سے سبکدوش کردیا گیا تھا۔نتیجہ کے طور پر ناجائز طریقے سے جبرا قبضہ کئے گئے اس بنگلہ کی بھی وہی کہانی بن گئی کہ پہلے جائیداد کے طلب میں بنگلہ پر ناجائز قبضہ کیا گیا اور اب اسی کو بچانے کے لئے خواجہ معین الدین رشوت تقسیم کرتے ہوئے پھر رہا ہے۔