نئی دہلی، سماج نیوز (عبدالمبین ندوی): جماعت واہل علم کے لئے یہ نہایت افسوسناک خبر ہے کہ آج 8مئی کی صبح معروف عالم دین ومشہور خطیب ودارالعلوم ششہنیاں کے سینئر استاذ ، جامعہ سلفیہ بنارس کے فارغ مولانا غیاث الدین سلفی اپنے رب حقیقی سے جاملے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ الموت قدح کل نفس شاربہوالقبر باب کل نفس داخلہ کسی عربی شاعر نے کہا کہ موت ای ایسا پیالہ ہے جسے ہر شخص کو پینا ہے، اور قبر ایک ایسا دروازہ ہے جس میں ہر شخص کو داخل ہونا ہے، مولانا غیاث الدین سلفی جماعت کے پرجوش خطیب تھے،انداز خطابت نرالا تھا، آواز میں گھن گرج تھی، جماعتی اجلاس میں اکثر مدعو ہوتے، بشمول یوپی،بہار،جھاڑکھنڈ، بنگال کے اجلاس حسب سہولت شرکت کرتے، اور اپنے منہجی گفتگو سے سامعین کو متاثر کرتے ،توحید ان کا خص موضوع تھا،جو بات کہتے مدلل کہتے ، عمر60 کے پارتھی دارلعلوم ششہنیاں میں سرکاری تنخواہ پر ریٹائر ہوگئے تھے ،تاہم صحت مند اور ہنس مکھ تھے ، پچھلے سال ناسک میں آخری ملاقات ہوئی تھی،محبت سے ملے، کچھ عرصہ سے شوگر کے مریض تھے، کئی برسوں سے نو گڈھ میں اپنا خوبصورت مکان بنا کر رہ رہے تھے ، شادی کے بعد نرینہ اولاد نہیں ہوئی پانچ بچیوں کے بعد لگاتار تین لڑکے ہوئے، جو لکھنؤ میں زیر تعلیم ہیں، تین بچیوں کی شادی سے فارغ ہوچکے تھے، جامعۃ الصالحات کے نام سے ایک نسواں مدرسہ بھی قائم کیا تھا، مگر اس سے علیحدہ ہوگئے تھے، حج بیت اللہ کا ارادہ تھا مگر ’’کم حسرارت فی بطون المقابر‘‘اللہ ان کی تدریسی و جماعتی و دعوتی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے جنت الفردوس کا مکین بنانے،اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے بچوں کا نگہبان ہو نیزجماعت کو نعم البدل عطا فرمائے۔آمین
next post