مدرسوں کے 10ہزار طلبا و طالبات کو ڈاکٹر وآئی پی ایس بنانے کا عزم
نئی دہلی، سماج نیوز: (مطیع الرحمٰن عزیز)گزشتہ دنوں میں نے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کا دورہ کر کے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ جسے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تشہیر ملی۔ اس کے علاوہ ہندستان بھر کے کونے کونے میں اس تحریر کو اردو اخباروں نے شائع کرکے میری بات کو عوام تک پہنچانے میں مدد کی ۔ تمام حمایتیوں کا اور خاص طور سے میڈیا برادری کا میں شکر گزار ہوں کہ میری تحریر کا مقصد محض اتنا سا ہے کہ لوگوں تک محنت کش لوگوں کی کوششوں کو پہچاؤں اور نونہالان قوم وملک کو ایک ایسے راستے کی طرف رہنمائی کروں کہ وہ اپنی پرواز میں بلندیاں لا سکیں ۔ میں نے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ میرا سفر چونکہ اسی نسبت سے تھا کہ میں لوگوں کی رہنمائی کر سکوں ۔ اور الحمد اللہ اب تک میری رہنمائی پر ملک بھر سے سیکڑوں طلبا نے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس میں آگے کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے آن لائن رجسٹریشن کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ میری اس خوش قسمتی اور کوشش کو شرف قبولیت بخشے اور تمام طلبا کو ان کی تعلیم میں آسانی میسر ہو۔ کیونکہ تعلیم ہی کسی قوم کی بلندیوں پر جانے کی اصل کلید ہوتی ہے۔
شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس شاہ پور بیدر پہنچنے کے ساتھ ہی وہاں کے پی آر او جناب عبد الرحمن اعظمی صاحب نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا اور ہر طرح سے ایک ایک جگہ کا میری رہنمائی کرتے ہوئے مشاہدہ کرایا۔ مثلا سب سے پہلے ایک ایسے کمرے میں مجھے لے جایا گیا جہاں دو نوجوان ملازم بیٹھے ہوئے وائر لیس فون کی مدد سے تمام ادارے کی نگرانی کر رہے تھے۔ کسی بھی طرح کی بد نظمی ہوتے ہی متعلقہ محکمہ کو فون کرکے بتایا جاتا تھاکہ فلاں جگہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ مجھے انہی کیمرے پر کام کرنے والے ملازمین نے بتایا کہ شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن بیدر کے تمام کلاس روم، کمرے، گراؤنڈ یہاں تک کہ چپے چپے پر نظر رکھنے کے لئے 1300 سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ جن میں چند ایسے ہائی ریزولیشن کیمرے بھی تھے جس سے مکمل شہر بیدر کی نگرانی اور آس پاس کے علاقوں پر بھی نگاہ رکھا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک دوسری جگہ پر کنٹرول روم کا بھی قیام کیا گیا ہے۔ جہاں سے تمام ملک بھر کے سیکڑوں شاہین اداروں یہاں تک کہ دبئی کے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے اداروں کی نگرانی عمل میں لائی جا سکتی تھی۔
اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ سی سی ٹی وی کنٹرول روم میرے سفر کے تمام تھکان کو ختم کرنے والا اور مقصد کو مکمل کرنے والا مانا جا سکتا تھا۔ ملازمین نے بتایا کہ یہاں پر بچوں کے جہاں دیگر انتظامات کے لئے ایک بڑا بازار شوروم ہے جہاں سے بچے اپنی ضرورت کی چیزوں کو خرید سکتے ہیں۔ اور ایک حیران کن بات یہ بھی بتایا گیا کہ اگر کسی وجہ سے بچے کے پاس پیسے ختم ہو جاتے ہیں یا مطلوبہ چیز کی فراہمی میں پیسوں کی قلت ہوتی ہے تو اسی شوروم بازار سے جو ادارہ کے اندر ہی ہے ملازمین والدین کو فون کرکے بتاتے ہیں کہ فلاں چیز آپ کے بچے کو درکار ہے لیکن اس کےلئے پیسے ناکافی ہیں۔ لہذا نیٹ بینکنگ گوگل پے یا فون پے کے ذریعہ ادائیگی پر بچے کو وہ چیز فراہم کرائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ غیر مہذب طریقے کے طور طریقوں سے بچوں کی حفاظت کی جائے اس کے لئے اندرون کیمپس ہی ایک ہیئر سیلون کا بھی قیام ہے۔ جہاں کسی بھی وقت بچے جا کر اپنے بال بھی کٹوا سکتے ہیں۔ لہذا خلاصہ کلام کے طور پر یہ کہنا بجا ہوگا کہ طلبا کی زندگی میں جن جن چیزوں کی بھی ضرورت ہو اس کو آسانی سے مہیا کرانا ہے تو شاہین گروپ آف انسٹی ٹیشنس سے سیکھا جائے کیونکہ نظام وضابطہ کا جو معیار بیدر میں میں نے دیکھا وہ دوسری بہت کم جگہوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
جس دن میرا سفر ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس بیدر کا ہوا وہ دن اتوار کا تھا۔ لیکن کیمرہ مین نے دکھایا کہ سارے بچے اپنے اپنے کلاس روم میں پڑھتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ آج چھٹی کا دن ہوگا میں نے گمان نہیں کیا تھا۔ میں نے سوال کیا کہ ٹیچرس بہت کم کلاس روم میں نظر آ رہے ہیں ۔ تو بتایا گیا کہ آج چھٹی کا دن ہے۔ بچے سیلف اسٹڈی میں منہمک ہیں۔ جس پر کافی حیرانی ہوئی کہ یہاں پر پڑھنے والے بچوں کے لئے یہ انہماک قابل ستائش اور قابل تعریف ہے۔ اس کے برعکس بھی کئی کلاس روم میں ٹیچرس نظر آ رہے تھے۔ جن سے بچے اپنے سوالات کا تشفیہ کر رہے تھے۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس میں مغرب سے لے کر عشاءکے درمیان تک ”ڈاؤٹ“ کلاس ہوتا ہے۔ جس میں طلبا ان سوالات پر اپنے اساتذہ سے گفتگو کرتے ہیں جو انہیں دوران تدریس سمجھ میں نہ آسکا تھا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس بیدر میں ایک دن کے سوالات کو دوسرے دن پر ٹالے جانے کا کوئی گمان نہیں ہے۔
مطالعہ اور ٹائم شیڈیول کے تعلق سے پتہ چلا کہ بچے صبح چار بجے بیدار ہوکر اپنے بستر سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ایک گھنٹے قرآن کا مطالعہ کرایاجاتا ہے۔ چائے اور ہلکے ناشتے کے بعد کلاس روم کی طرف بچوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ بچے دو گھنٹے کلاس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، پھر ان کو ناشتے کی میز کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر سے کلاس لگایا جاتا ہے اور ظہر کے اذان تک مختلف کلاسیز چلتے ہیں۔ پھر کھانے سے فرصت حاصل کرکے دوبارہ کلاس کا قیام ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ عصر تک چلتا ہے۔ عصر سے مغرب تک کا وقت بچوں کو کھیلنے کودنے اور اپنی ضروریات کی چیزوں کو مکمل کرنے کی فرصت دی جاتی ہے۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد پھر سے ڈاؤٹ کلاس کا اہتمام ہوتا ہے۔ اور پھر عشاءکے بعد کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور پھر بذات خود مطالعہ کا دور رات دس بجے تک چلتا ہے۔ اب بچوں کو دیگر مصروفیات سے چھٹی لے کر اپنے اپنے بستروں پر بھیج کر تمام کمروں کی لائٹوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے کل انتظامات کا اہتمام شاہین گروپ آف اسنٹی ٹیشنس بیدر میں کیا جاتا ہے۔