دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کے برعکس نہ تو کوئی معاشی بحران، نہ ہی وبائی مرض اور نہ ہی یوکرین جنگ چھوٹے سے ملک برونائی کی معیشت پر کچھ خاص منفی اثر ڈال سکا ہے۔کورونا کی وبا کے دوران دنیا کے بڑے بڑے ممالک عوام کی فلاح کے لیے مختص رقم کو وبا سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہوئے، تو اُس وقت بھی برونائی وہ ملک تھا جس کے قرض کا تناسب مجموعی قومی آمدن کے مقابلے میں انتہائی کم تھا یعنی صرف 1.9فیصد۔لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ قرض کا جی ڈی پی کے تناسب سے کم ہونا کسی ملک کی صحت مند معیشت کی نشاندہی کرے۔بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بھی قرض کا تناسب جی ڈی پی سے کم ہے مگر اُس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک پر چڑھے قرض کی سطح کم ہے مگر ساتھ ساتھ ویلتھ کریئیشن کی بھی۔تاہم برونائی میں ایسا نہیں ہے۔یہ چھوٹی سی ریاست اپنے تیل اور گیس کے وافر ذخائر کی بدولت دنیا میں اعلیٰ ترین معیار زندگی کے حامل ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کا چوتھا امیر ترین ملک ہے۔برونائی میں سکول آف اوریئئنٹل اینڈ افریقن سٹڈیز میں معاشیات کے پروفیسر الریچ وولز کے مطابق ’برونائی ایک پیٹرو سٹیٹ (ایسی ریاست جس کی معیشت کا دارومدار تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہو) ہے۔ خام تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار اس کے جی ڈی پی کا تقریباً 90 فیصد ہے۔‘ایک اندازے کے مطابق برونائی کے پاس 2017 کے آخر میں 1100 ملین بیرل تیل کے ذخائر موجود تھے، جو تیل کے عالمی ذخائر کا 0.1فیصد ہے۔ جبکہ اس ملک کے پاس 2.6کھرب کیوبک میٹر گیس کے ذخائر بھی ہیں جو گیس کے عالمی ذخائر کا 0.13فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔جنوب مشرقی ایشیا میں جزیرہ بورنیو کے شمالی ساحل پر واقع برونائی کی سرحدیں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے ساتھ ملتی ہے۔اس کے شاہی خاندان کے افراد، جن کی سربراہی ریاست کے سربراہ سلطان حسن ال بولکیہ کرتے ہیں، بے پناہ دولت کے مالک ہیں۔
فلاحی ریاست:یہاں کی عوام سے انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا ہے۔برونائی کے شہری انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور حکومت اپنے شہریوں کو یونیورسٹی کی سطح تک مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔اور اس ملک کا دارالحکومت ایک صاف ستھرا اور پُرسکون شہر ہے۔اس کے علاوہ برونائی کے سلطان، جو عوام میں کافی مقبول ہیں،گاہے بگاہے مختلف سرکاری سکیموں کے تحت مستحق شہریوں میں پلاٹ اور مکان بانٹتے رہے ہیں تاکہ شہریوں کو رہائش کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔’یہ آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا ملک ہے، اس کی آبادی پانچ لاکھ بھی نہیں اور اس ملک کا مجموعی رقبہ 5700 سکوائر کلومیٹر تک محدود ہے۔برونائی پر اتنے کم قرض کی ایک وجہ ہائیڈرو کاربن کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن بھی ہے۔الریچ وولز کے مطابق ’اس صورتحال کے باعث برونائی نے وقت کے ساتھ ملک میں بڑے مالیاتی ذخائر قائم ہیں جو مشکل صورتحال میں حکومت کو مالی اعانت فراہم کرتے ہیں اور حکومت قرض حاصل کرنے کی جانب نہیں جاتی۔‘’سادہ الفاظ میں برونائی کی معیشت کافی چھوٹی ہے جس کا زیادہ دارومدار خطے کے دیگر ممالک پر نہیں ہے۔‘پروفیسر وولز کہتے ہیں کہ ’اپنے فوسل فیول کی برآمدات کی بدولت برونائی ایک بڑا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رکھتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ملک باقی دنیا کے لیے خالص قرض دہندہ ہے مگر دوسری جانب اسے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘برونائی اپنی تیل کی صنعت کی بدولت غیر ملکی قرضوں سے پاک ایک نایاب ملک ہے جو اپنے بینکوں اور حکومتی خزانوں کے لیے بھاری رقوم پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے نتیجے میں جب کہ دنیا کے باقی ممالک کو غیر ملکی قرض دہندگان کی مالی اعانت پر زیادہ یا کم حد تک انحصار کرنا ہوتا ہے تو وہیں برونائی کی حکومت اپنے ہی بینکوں سے حاصل ہونے والے قرضوں سے اپنا سسٹم چلاتی ہے۔برونائی کی معیشت کا ایک فائدہ مند پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کو اپنے نجی قرضوں کی ادائیگی کے لیے غیر ملکی کرنسی خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور دوسرا پہلو یہ کہ حکومت اور اس کی معیشت منافع اور ٹیکس کو اپنی معیشت کے اندر رکھتی ہے۔موڈیز اینالیٹکس کے ماہر اقتصادیات ایرک چیانگ کا کہنا ہے کہ ’موثر مالیاتی انتظام برونائی کی حکومت کے لیے ایک مستقل ترجیح رہی ہے، اور وہ یہ سب اپنے شہریوں اور کاروباروں پر کم سے کم مالیاتی دباؤ رکھتے ہوئے کرتی ہے۔‘’برونائی مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس چلاتا ہے، جس سے اس کے غیر ملکی قرضوں کی مالی اعانت میں مدد ملی ہے۔ حالیہ برسوں میں قرض لینے کے اخراجات نسبتاً کم رہے ہیں اور اس سے قوم کو عوامی اخراجات کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کا سہارا لیے بغیر قرض کی خدمات کو کم سے کم رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔تاہم اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوششوں کے باوجود برونائی کو اہم مالی خطرات کا سامنا ہے کیونکہ عالمی معیشت ’ڈی کاربونائز‘ ہو رہی ہے۔تکنیکی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ’گیس اور تیل کے شعبے پر کسی ملک کا بہت زیادہ انحصار ملک کی فکنکشنگ پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ توانائی کے عالمی ماڈل کی تبدیلی کا عمل مسلسل وقوع پذیر ہو رہا ہے۔‘
سخت اسلامی قانون:یاد رہے کہ برونائی کو مکمل آزادی 1984 میں ملی تھی اس سے قبل یہ برطانیہ کی کالونی تھا۔برونائی کے سلطان حسن البلقیہ کا شمار قدیم ترین مطلق العنان بادشاہوں کے خاندان سے ہے۔ اور یہ ان چند باقی مانندہ ممالک میں ہے جہاں آج بھی بادشاہت کا نظام رائج ہے۔ان کے والد حاجی عمر علی سیف الدین کی دستبرداری کے سلطان حسن اگست 1968 میں بادشاہ بنے تھے۔1984 میں برونائی کی آزادی کے بعد انھوں نے خود کو وزیر اعظم مقرر کیا اور 1991 میں ملائی مسلم بادشاہت کے نام سے ایک نظریہ متعارف کرایا ، جس کے تحت بادشاہ کو ’عقیدے کے محافظ‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔2014 میں برونائی پہلا مشرقی ایشیائی ملک بن گیا جس نے سخت اسلامی شریعت کو اپنایا۔لیکن 2019 میں سخت بین الاقوامی تنقید اور بائیکاٹ جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد برونائی نے ہم جنس پرستی اور زنا جیسے جرائم کے مجرموں کو سنگسار کرنے کی سزا دینے کے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا۔اگرچہ برونائی میں چند جرائم کی پاداش میں موت کی سزا دینے کا قانون اب بھی موجود ہے تاہم 1957 کے بعد سے کبھی کسی کو یہ سزا نہیں دی گئی۔(بشکریہ بی بی سی)