ہر مظلوم مجھے اپنے ساتھ کھڑا پائیگا:عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ
نئی دہلی، سماج نیوز: ( مطیع الرحمن عزیز) ہیرا گروپ آف کمپنیز کی سی ای او اور آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کی کل ہند صدر۔ جامعہ نسواں السلفیہ کی روح رواں اور ہیرا میڈیکل کالج کی بانیہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے اپنی زیر سرپرستی چلنے والی تنظیموں اور اداروں کی فہرست میں ایک اور اضافہ کرتے ہوئے ہیرا لاءایسوسی ایٹ کا افتتاح عمل میں لا دیا ہے۔ ہیرا لاءایسو سی ایٹ کا افتتاح حیدر آباد میں بنجارا ہل پر واقع ہیراگروپ کانفرنس ہال میں لگ بھگ پچاس وکیلوں کی موجودگی میں میڈیا برادری کے درمیان کیا گیا۔ ہیرا لا ایسو سی ایٹ کا مقصد ملک بھر میں ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے مظلومین کو قانونی امداد مہیا کرانا ہے۔ اور خاص طور سے عورتوں کے خلاف ہونے والے مظالم و نا انصافیوں کے خلاف جدو جہد کرنا ہے۔ ان باتوں کی معلومات مطیع الرحمن عزیز نے اپنے جاری ایک پریس ریلیز میں کیا ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے بدست حیدر آباد میں ہیرا لاءایسو سی ایٹ کا قیام عمل میں لا یا گیا ہے۔
ہیرا لاءایسو سی ایٹ کے قیام اور اس کے مقصد و غرض غایت کے تعلق سے میڈیا اور خاص طور سے وکیلوں کی جماعت سے خطاب کرتے ہوئے عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے کہا کہ قدرت جب بھی ہمارے ساتھ کسی واقعے کو رونما کرتی ہے تو اس کا ایک اشارہ ہوتا ہے کہ اس واقعے اور حادثے کے پیچھے کے راز سے آپ کو رو برو کرانا مقصد ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے میرے ساتھ بھی قدرت نے ایک حادثاتی معاملے کا وجود عمل میں لایا ۔ جس سے ابتدا میں میں نا بلد تھی اور کشمکش کے عالم میں تھی کہ آخر میں نے کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ ایسا سخت معاملہ کیوں رو نما کیا، جس کے برداشت کا مادہ میرے اندر نہیں ہے۔ لیکن جس طرح سے میرا وقت گزرتا گیا، طاقت اور رازداری کے وہ سارے پردے میرے سامنے سے ہٹتے چلے گئے۔ میں نے دیکھا کہ قید وبند کی صعوبتوں میں میرے ساتھ ایسے ایسے درد مند سامنے آتے گئے، جو بے گناہ اور مظلوم ہوا کرتے تھے۔ جن کی سزا صرف الزام پر منحصر تھی۔ کسی نے کسی خاتون پر الزام عائد کیا کہ مجھے شک ہے کہ اس نے میرے زیور چرائے ہیں۔ ثابت نہیں ہوا مگر ساس کے کہنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ بہو کو پولس لے گئی۔ شوہر نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا، اور اب وہ خاتون جیل کی سلاخوںکے پیچھے ہے۔ بے چاری عورت ذات کے لئے کس قدر کسمپرسی کا عالم ہے کہ جس شوہر کے سہارے وہ پوری دنیا کو چھوڑ کر اپنے گھر بار کو ترک کرکے چلی جاتی ہے، وہ بھی کہہ دیتا ہے کہ ہمیں اب تم سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ تم جیل میں رہو یا کہیں دوسری جگہ۔ ہم تمہارے لئے مقدمات کی پیروی نہیں کریںگے۔ نتیجہ کے طور پر وہ خاتون اب جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہے۔ معاملہ صرف الزام کی حد تک تھا۔ قانونی کارروائی ہوئی ہوتی تو وہ خاتون جیل سے رہا ہو کر عزت کی زندگی جی سکتی تھی۔ لیکن عورت کے اوپر صرف الزام کا عائد ہونا اس کے لئے دنیا کا سب سے بڑا گناہ ثابت ہوتا ہے۔
لہذا اس طرح کے سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں معاملے میرے سامنے آئے ہیں۔ جب تک میں جیل کی چہار دیواری کے درمیان میں رہی، ایک ایک خاتون کا معاملہ اپنے وکیلون سے جانچ پڑتال کراتی تھی، اور کم سے کم پیسے پر بیل ملنے والوں کو میں آزادی دلایا کرتی تھی۔ جیل سے باہر آئی تو میرے پاس ایسی خواتین کی بڑی فہرست تھی۔ ان کے لئے کام کیا اور انہیں قانونی مدد فراہم کرتے ہوئے انہیں باہر نکالاگیا۔ لیکن اب میں بہت ساری چیزوں سے نابلد ہوں۔ لیکن ہمیشہ معلومات تاریکی میں نہ رہیں اس لئے میں نے ہیرا لاءایسو سی ایٹ کا قیام کیا ہے۔ اس ہیرا لاءایسو سی ایٹ کی ماتحتی میں وکیلوں کی ملک گیر پیمانے پر ایک بڑی جماعت کو مستعد کیا جائے گا، اور مظلومین کی فہرست تیار کرکے قیدیوں کو رہائی دلائی جائے گی۔ کیونکہ قید خانے میں برسوں سے پڑے ہوئے قیدی کو اتنا بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اسے کس جرم کی سزا ہوئی ہے۔ ایک پھل پھروٹ بیچنے والا کسی مالدار شخص سے کہا سنی ہوجاتی ہے۔ معاملہ پولس تھانے تک جاتا ہے۔ اہل ثروت وجاہ اپنے غصے اور پیسے کے بل پر غریب شخص کو اس کے انجام تک پہنچانے کے لئے اپنی ناجائز طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور سبزی فروش شخص کو جیل کی تاریک کوٹھریوں میں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ غریب کے بچوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ پردیش میں میرے سرپرست کے ساتھ کیا کچھ ہواہے۔ دوسری جانب اس غریب کو خود کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اسے قانونی کاررائی کس طرح فراہم ہو سکے گی۔
لہذا برسوں سے قید خانے کی صعوبتوں کو جھیلتا ہوا ایک خاندان کا چشم وچراغ بجھتا ہوا دکھائی دیتاہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ظلم کے خلاف ملک کے تمام قانون داں افراد اکٹھا ہو جائیں اور فہرست تیار کریں کہ ملک کے ریاستی اور ضلعی سطح پر قائم جیلوں میں ایسے کتنے لوگ ہیں جنہیں ابتدائی قانونی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ہی ان کی رہائی اور مظلومین کو انصاف دلانے کی طرف قدم پختہ طریقے سے بڑھایا جاسکے اور برسوں سے بے سہارا پڑے ہوئے قیدیوں کو کھلی دنیا اور آب وہوا میں لانے کا کام کیا جائے۔