ہم مکمل تعاون کر رہے ہیں، جلد صورتحال سلجھنے کی اُمید: بی بی سی، ایڈیٹرز گلڈ کا سخت ردعمل ’خوفزدہ کرنے کیلئے کارروائی انجام دی گئی‘، بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے حکومت کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ:کانگریس، قانون سے بالاتر کوئی نہیں: انوراگ ٹھاکر
نئی دہلی، سماج نیوز: انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ (آئی ٹی) کی ٹیم سروے کرنے کے لیے منگل کو بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر پہنچی۔ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ذرائع کے مطابق یہ سروے بدھ کو بھی بی بی سی کے دفتر میں جاری رہ سکتا ہے۔ بدھ کو بی بی سی کے دفاتر میں سروے جاری رہے گا، آئی ٹی ٹیم اکاؤنٹس-الیکٹرانک گیجٹس کی جانچ کر رہی ہےبدھ کو بی بی سی کے دفاتر میں سروے جاری رہے گا، آئی ٹی ٹیم اکاؤنٹس-الیکٹرانک گیجٹس کی جانچ کر رہی ہے۔ذرائع کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کی ٹیم ابھی تک دفتر میں موجود ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ملازمین کے فون بھی دفتر میں جمع کرائے گئے ہیں۔ دریں اثنا، دفاتر میں کسی کے بھی آنے جانے پر روک لگا دی گئی۔ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملازمین کو بعد میں گھر بھیج دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی ٹیکس چوری سے متعلق ہے اور محکمہ انکم ٹیکس کی ٹیم بی بی سی کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ ہندوستان میں بی بی سی کے خلاف یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب نشریاتی ادارے نے کچھ عرصہ قبل ٹیلی ویژن پر دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کوئسچن’ جاری کی ہے ۔ اس کے تعلق سے تنازع ہے ۔ حکومت نے سوشل میڈیا پر اس کی نشریات پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے ہندوستان کیخلاف جارحانہ پروپیگنڈہ اورہند مخالف کچرا قرار دیا۔ ناقدین اسے استعماری ذہنیت کی شرارت قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی کے دہلی و ممبئی دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس کے چھاپے کے بعد ہر طرف سے ردعمل سامنے آرہا ہے۔ اب اس معاملے پر بی بی سی کا سرکاری بیان بھی سامنے آ گیا ہے۔ بی بی سی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے سروے پر مکمل تعاون کر رہے ہیں۔بی بی سی نیوز کی پریس ٹیم نے ایک بیان میں کہا کہ انکم ٹیکس حکام اس وقت نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر میں ہیں اور ہم مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ صورتحال جلد از جلد حل ہو جائے گی۔ بی بی سی نے اپنے پہلے بیان میں حکام سے تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔اس سے قبل منگل کی صبح محکمہ انکم ٹیکس کی مختلف ٹیمیں اچانک ممبئی اور دہلی میں برٹش براڈکاسٹنگ سروسز (بی بی سی) کے دفاتر پہنچیں اور تمام ملازمین کے فون قبضے میں لے کر تحقیقات شروع کیں۔ انکم ٹیکس ٹیم نے دفتر میں کسی کی نقل و حرکت پر بھی پابندی عائد کردی۔ ذرائع کی مانیں تو یہ سروے ٹیکس چوری سے متعلق معاملے کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔بی بی سی کے دفتر پر چھاپے کے حوالے سے ملک بھر سے شدید ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ بی بی سی پر انکم ٹیکس کے چھاپے کی خبروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے ٹویٹ کیا ‘‘بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس کا چھاپہ مایوسی کا نتیجہ لگتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ مودی حکومت تنقید سے خوفزدہ ہے ۔ ہم دھمکی کے ان ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ غیر جمہوری اور آمرانہ رویہ مزید نہیں چل سکتا’’۔پارٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے انچارج جے رام رمیش نے بھی حکومت کے اس قدم پر تنقید کی ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس کے چھاپوں پر اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی رد عمل پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور سوال کیا ہے کہ کیا ملک کے خلاف زہریلا ایجنڈا چلانے والی اور قانون پر عمل نہ کرنے والی تنظیموں کو تحقیقات سے پہلے کلین چٹ کیسے دی جا رہی ہے ؟بی جے پی کے قومی ترجمان گورو بھاٹیہ نے یہاں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے بی بی سی کے دفاتر پر جاری ‘سروے ’ کے درمیان کہا کہ ہندوستان میں کام کرنے والی کسی بھی میڈیا تنظیم کو ملک کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جس طرح کے سیاسی رد عمل آرہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ایڈیٹرز گلڈ نے بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سرکاری اداروں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ یا حکومت پر تنقید کرنے والی میڈیا تنظیموں کے خلاف دھمکیانے اور ہراساں کرنے کے رجحان کا حصہ ہے۔ تاہم محکمہ انکم ٹیکس نے اس سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ وہیں، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی اس کارروائی پر شدید تنقید کی ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان جاری کر کے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے انجام دیا جا رہا سروے اقلیتوں کی موجودہ صورتحال اور گجرات میں 2002 کے تشدد پر بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے اجراء کے بعد سامنے آیا ہے۔ حکومت نے دستاویزی فلم میں گجرات تشدد کے بارے میں رپورٹنگ پر بی بی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ہندوستان میں اس کے آن لائن دیکھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ محکمہ انکم ٹیکس کا یہ سروے سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کر کے ان پریس تنظیموں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے رجحان کے تحت کیا جا رہا ہے، جو حکومتی پالیسیوں یا حکمران اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتی ہیں۔خیال رہے کہ حال ہی میں بی بی سی نے وزیر اعظم مودی اور گجرات فسادات پر مبنی ایک دستاویزی فلم نشر کی تھی، جس پر کافی تنازعہ ہوا تھا اور حکومت نے اس پر پابندی بھی عائد کر دی۔ مرکزی حکومت نے اس دستاویزی فلم کو پروپیگنڈہ قرار دیا تھا۔ مرکزی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ دستاویزی فلم یک طرفہ نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم حکومت کی پابندی کے باوجود کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس کی نمائش کی گئی۔ اس کو لے کر دہلی کے جے این یو میں کافی ہنگامہ ہوا تھا۔وہیں، ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنت مہوا موئترا نے ٹوئٹ کر کے کہا ’’بی بی سی کے دہلی دفتر میں انکم ٹیکس کے چھاپے کی خبر ہے۔ بہت خوب۔ غیر متوقع!‘‘وہیں بی جے پی کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کا بیان آئی ٹی سروے کو لے کر آیا ہے۔ اس سروے کے حوالے سے انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ ہندوستان میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے محکمہ انکم ٹیکس کے سروے کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔ انھوں نے کہا- ‘کانگریس کو یاد رکھنا چاہیے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بی بی سی پر پابندی لگا دی تھی۔ محکمہ انکم ٹیکس نے بی بی سی کے دفتر پر قانونی کارروائی کی۔ بی بی سی دنیا کی سب سے کرپٹ ریبش کارپوریشن بن گئی ہے۔ بدقسمتی سے بی بی سی کا پروپیگنڈہ اور کانگریس کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔