نئی دہلی، سماج نیوز: ( مطیع الرحمٰن عزیز)زمین مافیا ہوں کہ گھروں پر دراندازی کر قبضہ جما کر بیٹھ جانے والے سرکاری غنڈے، سیاسی ہرکارے ہوںیا ان کی پالتو ناجائز ٹٹو۔ ان سب کے آپسی تال میل اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ ملک کی سپریم کورٹ اور بڑے سے بڑا عہدے پر براجمان عہدے دار سب کو یہ لوگ ٹھینگا دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ معاملہ حیدر آباد کے جبلی ہل روڈ، ایم ایل اے کولونی کا ہے، جہاں پر ہیرا گروپ جویلرس کے بنگلہ پر اس وقت قبضہ کر لیا گیا جب کمپنی کی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ عدالتی معاملات میں مصروف تھیں۔ توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ اس درمیان میں کمپنی کی ساری جائیدادوں پر ای ڈی نے جانچ پڑتال کے نام سے اپنے احاطہ میں لے کر جانچ بورڈ لگایا ہوا تھا۔ پھر بھی ای ڈی کے بورڈ لگے ہونے کے باوجود خواجہ معین الدین پولس اہلکار اور اب حال میںوقف بورڈ معاملات کا ذمہ دار اپنی وکیل اہلیہ اور کچھ دوستوں سمیت بنگلے میں گھس کر سونے اور زیورات پر قبضہ کرتے ہیں اور نقدی کو آپس میں تقسیم کرکے خواجہ معین الدین بنگلے کا فرضی کاغذ بنا کر رہنا شروع کر دیتا ہے۔ کمپنی ہیرا گروپ جویلرس اور بورڈ آف ڈائرکٹرس جب عدالتی معاملات سے باہر نکلتے ہیں تو اپنے بنگلے پر قبضہ دیکھ کر پولس وین سو نمبر کو فون کردیتی ہے مگر ایف آئی آر تک درج نہیں کیا جاتا ۔ بعد میں اس بات کی جانکاری انفورسمنٹ ڈرائرکٹوریٹ (ای ڈی) کو دیا جاتا ہے کہ آپ کے بورڈ چسپاں ہونے کے باوجود ہمارے بنگلے پر کوئی قبضہ کیسے کر سکتا ہے۔
ان تمام باتوں کی معلومات ایک درخواست کے ذریعہ مرکزی حکومت کی ای ڈی، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کو بھیجی گئی ۔ جس کے جواب میں کارروائی کرتے ہوئے وزیر اعظم دفتر نے حکومت تلنگانہ چیف سکریٹری کو خط بھیجا کہ اس بات کی جانکاری اور مکمل تفصیلات سے جلد از جلد مرکزی حکومت اور دیگر سرکاری دفاتر کو آگاہ کرائے جائیں۔ لیکن افسوس صد افسوس مہینے بھر گزر جانے کے باوجود ابھی تک نہ پی ایم او کو کوئی جواب موصول ہوا اور نہ مرکزی ای ڈی دفتر کو اور نہ ہی درخواست گزارکے پاس کوئی جواب موصول ہوا ہے۔ مطلب صاف اور واضح ہے کہ چور چور موسیرے بھائی۔ ریاستی ای ڈی میں بھی معاملہ درج کرایا گیا۔ وہاں بھی کوئی خاص کارروائی ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ڈھاک کے دو پات۔ کل ملا کر پتہ یہ چلتا ہے کہ غنڈہ صفت عناصر کے تمام سرکار دفاتر میں بیٹھے آفیسران کے ساتھ اگر مکمل تال میل نہیں ہے تو اس طرح سے دن دہاڑے ریاست کی راجدھانی اور راجدھانی کے ماتھے پر قائم وہ بھی سرکاری بورڈ لگے ہونے کے باوجود کوئی در انداز زمین مافیا خواجہ معین الدین کی شکل میں کس طرح سے قبضہ جما کر مزے کی نیند سو سکتا ہے۔
کل ملا کر کارروائی کو آگے بڑھانے کی ضرورت آن پہنچی ہے۔ اب معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے درخواست گزار کا یہ عہد وپیمان ہے کہ تلنگانہ حیدر آباد میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا۔ اور اس کے بعد اس مقبوضہ بنگلے کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر معاملہ میڈیا ، عوام اور سرکار کی نظر میں لاتے ہوئے یہ سوال کیا جائے گا کہ آخر اس طرح کی قبضہ اور در اندازی و غنڈہ گردی بھلا حیدر آباد میں کب تک چلے گی۔ کیا خواجہ معین الدین تمام سرکاری و کورٹ کچہری اور قانون انتظامات کے معاملات سے اوپر اٹھ کر اپنی درانداز کا ڈھول پیٹتا رہے گا اور حکومت تلنگانہ اس کی مدد گار بنی رہے گی ساتھ ہی ساتھ چیف سکریٹری اپنی خاموشی کے ذریعہ تلنگانہ سرکاری آفیسر خواجہ معین الدین کی دراندازی میں مددگار ثابت ہوتا رہے گا۔
درخواست گزار کا اگلا ہدف یہ بھی ہوگا کہ صدر جمہوریہ، چیف جسٹس آف انڈیا ، پرائم منسٹر آف انڈیا سمیت تمام اعلیٰ عہدیداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے۔ کہ آیا ہمارا ہندستان آزادی کے دن گزار چکا کیا؟ کیا ہمارے ملک میں انگریز طاقتیں پھر سے جنم لے کر ابھرنے لگی ہیں؟ کیا ہمارے بھارت میں عوام کواب خوف وہراس کی حالت میں زندگی بسر کرنا ہوگا؟ کیا کسی کو سرکاری طاقت حاصل ہو جانے کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ وہ کبھی بھی کسی کی بھی زمین جائیداد اور مال وعزت سے کھلواڑ کر سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو بھلا سرکاری جانچ ایجنسی کے بورڈ چسپاں ہونے کے باوجود ایک بدعنوان معمولی عہدے کا پولس اہلکار خواجہ معین الدین تلنگانہ وقف معاملات کا عہدیدار ہندستان بھر کی سرکاری طاقتوں یہاں تک کہ وزیر اعظم کے عہدے اور فرامین کو بھی سبوتاژ کرتا پھرے گا۔