نئی دہلی، سماج نیوز:بند کوٹھریوںمیں بیٹھ کر ، حکومت کے ایوانوں سے بلند بانگ دعوے کرکے اور پیسوں کے ذریعہ چھپائے گئے رپورٹ کارڈ سے ہمارے ملک کی برسر اقتدار حکومتیں چاہے جتنا دعوی کرلیں کہ ہمارا ملک وشو گرو بننے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے، اور ہم ملک میں خوشحالی پھیلانے میں مگن ہیں، یہ سب جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان باتوں پر اگر میڈیا اور ملک کے نقاد عوام بھروسہ کرلیں تو خود کو دھوکہ میں ڈالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ رات کو دن کہیں اور دن کو رات یہ آپ کی مرضی ہے صاحب۔ لیکن حقیقت اس وقت آشکار ہو جاتی ہے کہ جب کسی انصاف پسند شخص سے آپ پوچھتے ہیںکہ در اصل ہے کیا ؟ ہمارا ملک خوشحالی کی ہوا میں مگن ہے، یا روزی روٹی کے لئے روز بروز خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ سڑکوں پر بھوکوں اور ننگوں کی بھرماڑ ہے، یا انصاف کے چوکٹ پر سب مالا مال دکھائی دیتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کی عدالت عالیہ کے تین ریڈ لائٹوں پر۔ قومی راجدھانی دہلی کے محض چند قدم پر یا پارلیمنٹ کی چہار دیواریوں پر خوشحالی کے بھونڈے مزاق نہیں چڑھا رہے ہیں تو اور کیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار مطیع الرحمٰن عزیز کارگزار صدر مہیلا امپاور منٹ پارٹی برائے اتر پردیش نے ایک تلخ رپورٹ منظر عام پر لاتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے تین کونوں پر قائم ریڈ لائٹ پر بھیک کانگنے والوں کی تعداد دیکھ لیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارا ملک وشو گرو کے کس مرحلے پر پہنچ گیا ہے۔ قومی راجدھانی دہلی کے ودھان سبھا سے محض چند قدم دور کشمیری گیٹ پر بیٹھے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر سو رہے بھوکے ننگے مجبور ومفلوک الحال افراد کی حالت دیکھ کر ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اور ہمارا ملک خوشحالی کے سیکڑوں سیڑھیوں پر بھی کہیں نظر نہیں آتاہے۔ اسی طرح سے بھارت کا مکھوٹا سمجھا جانے والا لال قلعہ جہاں سے ہر سال ملک کے وزیر اعظم بڑے فخر کے ساتھ قوم کو خطاب کرتے ہیں، اور بڑے بڑے بلند وبانگ دعوے کرتے ہوئے اس بات کو گنواتے ہیں کہ ہم نے یہ کر دیا وہ کر دیا ۔ وہیں سے چند قدم آگے چاندنی چوک پر سیکڑوں مریضوں، بھکاریوں اور لاچار ومجبور افراد کا برا حال ہوتا ہے، یہی حال لا ل قلعہ کے پیچھے دائیں اور بائیں بھی ہوتا ہے۔ لہذا کل ملا کر یہ ہے کہ ہم جہازوں پر جتنا چاہیں پھر لیں۔ ہم جتنا چاہیں پھراٹے بھرتی کاروںمیںگھوم لیں، جب جہاں سے نکلیں وہاں کی سڑکوں کو عوام سے پاک بنا دیں۔ اس طرح سے خوشحالی اور بدحالی کا اندازہ ہر گز نہیں لگ سکے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پیراشوٹ سے اترتی ہوئی قیادت کو زمینوں پر بھی کچھ دیر بسر کرنا چاہئے۔ ورنہ ہمارے دعوے کاغذوں میں تو وشو گرو اور خوشحالی کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہوں گے۔ لیکن ریڈ لائٹوں پر ، کشمیر گیٹ کے فوٹ پاتھوں پر۔ چاندنی چوک اور جامع مسجد کے دروازوںکے سامنے ان کاغذوں کے دعووں کی دھجیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ بیرون ممالک سے انگریز آتے ہیں، یہاں کی گندگی ، یہاں کے بے بسی ، یہاں کے بھوک مری اور خودکشی کی داستانوں کو تصویروں میں قید کرکے اور لکھ کر لے جاتے ہیں۔ اور اپنے ملکوں کی سرکاروں بتاتے ہیں کہ ہندستان میں بیماری کے اسباب کیا ہیں۔ ہندستان میں بھکمری کے اسباب کیا ہیں۔ ان کا علاج کیا ہو سکتا ہے۔ ان کا تدارک کیا ہو سکتا ہے، ان سب باتوں پر وہاں کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک صحافت ہی وہ پیشہ تھا جو ملک بھر کے کونے کونے اور چپے چپے سے بیماریوں اور بے روزگاریوں کی داستانوں کو نکال کر چھاپتا تھا۔ اور سرکاریں اگر اس پر نظر رکھتی تھیں تو اس علاقہ کی حالت بدل دیتی تھیں۔ لیکن ہمارے ہندستان میں کچھ سالوں سے قائم سرکاروں نے صحافتی پیشہ کو اپنے لئے آئینہ سمجھ کر اس کو پھوڑ دیا ہے۔ لکھنے پڑھنے اور بتانے کے جواز کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ جولیڈر خود دیکھتے ہیں اسی کو سچ بتاتے ہیں اور جو وہ بولتے ہیں اسی کو سچ ثابت کر وا لیا جاتا ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی اور اس کی صدر عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا قدم مضبوط کیا جائے۔ کیونکہ ایم ای پی ہی ملک کی وہ واحد پارٹی ثابت ہوگی جو اقتدار میں رہے یا نہ رہے ، اقتدار والوں سے بہتر کام کرکے دکھائے گی کہ بغیر سرکار اور حکومت میں رہتے ہوئے اگر فلاح و کامرانی کے اتنے عظیم کام کئے جا سکتے ہیں تو بھلا حکومتی خزانے جن کے پاس موجود ہیں وہ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔