اتراکھنڈ کے نینی تال ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے لگائی روک، حکومت اور ریلوے سے جواب طلب، راتوں رات 40ہزار لوگوں کو بے گھر نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ہلدوانی میں جشن
نئی دہلی، سماج نیوز: ریاست اتراکھنڈ میں پچھلے کئی دنوں سے مبینہ طور پر ریلوے کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کے معاملے کو آج اس وقت لگام لگی گئی جب سپریم کورٹ نے 40ہزار سے زائد گھروں کو منہدم کرنے اور رہائیشیوں کو بے دخل کرنے پر روک لگا دی۔ سپریم کورٹ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی جس میں ریاستی حکام کو ہلدوانی کے بانبھول پورہ علاقے میں ریلوے کی زمین سے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ریلوے کی زمین پر واقع 4ہزار سے زیادہ گھروں کے باشندگان کو جگہ خالی کرنے کے حکم پر روک لگا دی۔ اسی کے ساتھ اتراکھنڈ حکومت اور ریلوے کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں اگلی سماعت 7فروری مقرر کی ہے اور اس وقت تک کسی بھی گھر کو منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ ہلدوانی کے بانبھول پورہ کی غفور بستی سمیت پورے علاقہ کے تقریباً 40ہزار افراد پر بے گھر ہونے کی تلوار لٹک رہی تھی۔ دریں اثنا ہلدوانی میں بڑی تعداد میں لوگوں کا چل رہا احتجاج ختم ہو گیا ہے اور لوگوں نے راحت کی سانس لیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ سالہا سال سے کسی مقام پر بسے ہوئے لوگوں کو اس طرح تین دن کا نوٹس دے کر جگہ کو خالی نہیں کرایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مالکانہ حق کی جانچ ہونی چاہئے اور معاملہ کو حل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ میں کوئی بحالی کا عملی منصوبہ تیار کیا جانا چاہیے۔
قبل ازیں اس معاملہ پر ایک سینئر وکیل نے تازہ عرضی چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کی عدالت میں پیش کی اور اس کا خصوصی تذکرہ کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے ہی جسٹس کول کے سامنے زیر غور ہے، اس بنچ میں جو بھی فیصلہ لیا جائے گا وہ تمام عرضیوں پر نافذ العمل ہوگا۔ سپریم کورٹ میں ہلدوانی میں ریلوے کی 78ایکڑ اراضی سے 4365خاندانوں کو بے دخل کرنے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت کی گئی اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے۔ خیال رہے کہ اس علاقے کے تقریباً 50000 مکینوں پر بے گھر ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے، جن میں سے 90فیصد مسلمان ہیں۔مقامی باشندوں کے مطابق 78ایکڑ کے علاقے میں 5وارڈ ہیں اور تقریباً 25000ووٹرز ہیں۔
بزرگ، حاملہ خواتین اور بچوں کی تعداد 15000 کے قریب ہے۔ 20دسمبر کے ہائی کورٹ کے حکم کے بعد اخبارات میں نوٹس جاری کیے گئے تھے، جن میں لوگوں کو 9جنوری تک اپنے گھریلو سامان کو ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے 10اے ڈی ایم اور 30ایس ڈی ایم رینک کے افسران کو اس عمل کی نگرانی کرنے کی ہدایت دی ہے۔بہت سے خاندان 1910سے بانبھول پورہ میں غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر کالونیوں کے ’مقبوضہ علاقوں‘ میں رہ رہے ہیں۔ اس علاقے میں چار سرکاری اسکول، 10پرائیویٹ اسکول، ایک بینک، چار مندر، دو مقبرے، ایک قبرستان اور 10مساجد ہیں، جو گزشتہ چند دہائیوں میں تعمیر کی گئی ہیں۔ بانبھول پورہ میں ایک کمیونٹی ہیلتھ سنٹر اور ایک سرکاری پرائمری اسکول بھی ہے جو 100سال سے زیادہ پرانا بتایا جاتا ہے۔