27.8 C
Delhi
مارچ 27, 2025
Samaj News

گجرات ماڈل کا سچ- آزادی کے 75 سال بعد بھی گاؤں میں بجلی نہیں

احمدآباد: اگر کسی کی زندگی سب سے زیادہ خراب ہے تو وہ ہماری ہے، 45 سال کی عمر میں میں نے آج تک گاؤں میں بجلی نہیں دیکھی‘۔ یہ کہنا ہے ماوا بھائی رباری کا۔ ماوا بھائی اور ان کے جیسے کئی لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران ایک خیال بار بار میرے ذہن میں آتا رہا کہ ’چراغ تلے اندھیرا‘ والی کہاوت اگر کہیں درست بیٹھتی ہے تو وہ گجرات کا راگھنیساڈا گاؤں ہے۔یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب تک اپنے گاؤں میں بجلی نہیں دیکھی ہے اور ان کے خیال میں یہ بہت ہی نچلے درجے کا گاؤں ہے۔حالانکہ انڈیا پاکستان سرحد سے محض تیس کلو میٹر دور اس گاؤں میں 1400 ہیکٹر سے زیادہ زمین پر 700 میگا واٹ سے زیادہ کی صلاحیت والا سولر پارک بنایا گیا ہے اور گاؤں سے کئی کلو میٹر دور تک ہزاروں سولر پینل بچھائے گئے ہیں۔ جب ہم گاؤں پہنچے تو پہلی نظر میں یہاں کی زمین اور پورے ماحول پر ریگستان کا اثر صاف نظر آتا ہے۔لوگوں سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں پر بچھائے گئے سولر پینل سے روشنی بھر بجلی بھلے ہی مل جاتی ہے لیکن یہاں پر مسئلہ صرف بجلی کا ہی نہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔
اتنے بڑے پراجیکٹس کے آنے سے لوگوں کو امید تھی کہ انہیں روزگار ملے گا، لیکن گاؤں کے کچھ لوگوں کو وہاں صرف یومیہ اجرت کا کام اور چھوٹی نوکریاں مل رہی ہیں۔گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے دسویں یا بارہویں تک تعلیم مکمل کی ہو گی۔ زیادہ تر لوگ زراعت یا کھیتوں میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ من ریگا سکیم کے ذریعے آمدنی کا کچھ ذریعہ دستیاب ہے۔ ’جب کوئی سنتا ہی نہیں تو ووٹ کیوں دیں‘گاؤں کے زمینی مسائل پر ہونے والی گفتگو میں لوگوں میں انتخابات سے بیزاری نظر آئی۔ ہم نے ایک نوجوان امرت رباری سے پوچھا تو اس کی ناراضگی فوراً کھل کر سامنے آگئی۔ان کا کہنا تھا ’گاؤں میں کچھ نہیں ہے، بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے، ہمارے بچوں کی تعلیم کا حال برا ہے، ہم ووٹ نہیں دیں گے، جب کوئی ہماری بات نہیں سنتا تو ووٹ دینے کا کیا فائدہ‘۔امرباڑی جیسے گاؤں میں ایک ہزار سے زیادہ ووٹر ہیں اور کم و بیش ہر کسی کی آنکھوں میں ایسی ہی مایوسی ہے۔ گاؤں کی زراعت کا انحصار بارش پر ہے۔ سونا بھائی ہیما بھائی کہتے ہیں کہ جس سال بارش ہوتی ہے، وہ اپنے کھیت میں باجرہ اور زیرہ کاشت کرتے ہیں، ورنہ انھیں آبپاشی کے لیے نرمدا نہر کے پانی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔وہاں سے کچھ فاصلے پر گاؤں کی رابڑی برادری کے لوگوں کے گھر ہیں۔ ان لوگوں کا بنیادی پیشہ مویشی پالنا ہے۔ ماوا بھائی رباری اپنے گھر میں ایک ہاتھ سے گھاس جمع کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند سال قبل کام کے دوران مشین سے ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا تھا۔گفتگو کے دوران انھوں نے ہمیں گھر اور پانی کے ٹیکس کی رسیدیں دکھائیں۔ وہ کہنے لگے ’میں نے آج تک اپنے گاؤں میں 45 سالوں میں بجلی نہیں دیکھی۔ ہم نے تو جیسے تیسے زندگی گزار لی اب نئی نسل کے لیے زیادہ مشکل وقت ہے‘۔مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گاؤں کا رقبہ بڑا ہے اور لوگ کھیتوں میں رہتے ہیں اس لیے انھیں بجلی فراہم نہیں کی جاسکی۔قابل ذکر ہے کہ راگھنیسڈا میں لوگوں کے پاس آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ جیسے سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہے۔ دوسری جانب مقامی حکام نے بتایا کہ گاؤں کے سکول اور گرام پنچایت میں بجلی ہے۔(بی بی سی)

Related posts

ایگزٹ پول میں کانگریس کا جلوہ

www.samajnews.in

صدقۂ فطر غلہ ہی نکالنا ضروری ہے نقدی (روپیہ پیسہ) نکالنا درست نہیں

www.samajnews.in

فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا کے بینر تلے موضع پرسیا میں دینی پروگرام کا انعقاد

www.samajnews.in