انڈونیشیا: انڈونیشی جزیرے بالی پر جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر موجودہ امریکی اور چینی صدور کی پہلی بالمشافہ ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ یوکرین کی جنگ سمیت کسی بھی تنازعے میں جوہری ہتھیار دوبارہ کبھی استعمال نہیں کیے جانا چاہئیں۔ انڈونیشیا کے جزیرے بالی کے شہر نوسا دعا میں ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے بیس ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کی پیر چودہ نومبر کو ہونے والی ملاقات تین گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہی۔یہ ملاقات جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد سے لے کر اب تک چینی امریکی سربراہان مملکت کی اولین بالمشافہ ملاقات تھی۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے مابین آج تک کی صدارتی سطح کی بات چیت صرف ٹیلی فون پر یا ورچوئل ہی ہوئی تھی۔بائیڈن شی ملاقات کے حوالے سے اطراف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات امریکہ اور چین کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت یہ دونوں ممالک نہیں چاہتے کہ ان کے مابین پائے جانے والے موجودہ اختلافات بڑھ کر کسی باقاعدہ تنازعے کی شکل اختیار کر لیں۔اسی لیے اس ملاقات میں جو بائیڈن اور شی جن پنگ کی کوشش یہی رہی کہ واشنگٹن اور بیجنگ کو اپنے باہمی اختلافات کو اس طرح سنبھالنا اور انہیں حل کرنا چاہیے کہ وہ بگڑ کر کوئی باقاعدہ تنازعہ نہ بنیں۔امریکہ ایک سپر پاور ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی۔ اسی طرح چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی سطح پر دوسری سب سے بڑی معیشت بھی۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات اس وقت اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں۔واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین جن امور پر واضح اختلافات پائے جاتے ہیں، ان میں یوکرینی جنگ میں چین کی طرف سے روس کی حمایت، تائیوان کی وجہ سے کشیدگی اور تجارتی روابط میں مشکلات کے علاوہ بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ کے علاقائی دعووں کے باعث پیدا ہونے والا تناؤ سب سے نمایاں ہیں۔امریکی اور چین صدور کی پیر کے روز ہونے والی ملاقات بالی کے جزیرے پر جی ٹوئنٹی سمٹ کے آغاز سے ایک دن پہلے ہوئی۔ یہ سمٹ کل منگل کو شروع ہو رہی ہے۔اس سمٹ کے بارے میں غالب امکان یہ ہے کہ اس پر زیادہ تر روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کا موضوع چھایا رہے گا۔اس ملاقات میں امریکی اور چینی سربراہان مملکت کے ساتھ آنے والے قدرے چھوٹے وفود بھی شریک ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے کئی حساس موضوعات پر گفتگو کی۔وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ان موضوعات میں یوکرین کی جنگ، شمالی کوریا کا مسئلہ، تائیوان کے تنازعے کی وجہ سے پائی جانے والی کشیدگی اور ہانگ کانگ اور تبت جیسے موضوعات کے علاوہ انسانی حقوق کی صورت حال پر پائی جانے والی تشویش بھی شامل تھی۔ بیجنگ میں ملکی وزارت خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین کے لیے تائیوان کا معاملہ ایک ‘سرخ لکیر‘ ہے، جسے پار کرنے کی امریکہ کو کوئی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق صدر شی نے اپنے امریکی ہم منصب بائیڈن پر واضح کر دیا کہ تائیوان کا مسئلہ چین کے انتہائی کلیدی مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ ساتھ ہی صدر شی نے یہ تنبیہ بھی کی کہ چینی امریکی تعلقات میں یہی وہ ‘ریڈ لائن‘ ہے جسے عبور کرنے کی امریکہ کو کبھی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔(ڈی ڈبلیو)
previous post