نئی دہلی: بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے بدھ کے روز ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت پر اس بات کے لیے سخت نکتہ چینی کی کہ اس نے جی 20 کی صدارت کے سرکاری لوگو میں بھی پارٹی کا انتخابی نشان کنول کے پھول کا استعمال کر لیا۔بھارت آئندہ برس 19 ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل بین الحکومتی فورم ‘جی20’ کی صدارت کرنے والا ہے اور اس کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کے روز ایک لوگو اور تھیم ویب سائٹ کی نقاب کشائی کی تھی۔اس میں جی 20 کے ’صفر‘ کو ایک گلوب کی شکل میں اس گلوب کوہندوؤں کے لیے مقدس پھول ’کنول‘ پر رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کنول کا پھول ہندو اور بُدھ مت میں بطورایک مذہبی علامت رائج ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کنول در اصل بھگوان وشنو کی ناف ہے، جس سے دنیا کی ہر چیز وجود میں آئی۔ اسی تقدس کے عقیدے کی بنا پر ہی، ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے کنول کو اپنا انتخابی نشان بھی منتخب کیا ہے۔کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کانکریس پارٹی کے پرچم کو قومی پرچم بنانے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا لیکن، ’’بی جے پی بڑی بے شرمی سے اپنے آپ کو فروغ دینے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتی ہے۔‘‘انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’تقریبا 70 برس قبل نہرو نے کانگریس کے پرچم کو بھارتی پرچم بنانے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اب بی جے پی نے جی 20 کی صدارت کے لیے جو لوگو جاری کیا ہے اس میں اپنی پارٹی کے انتخابی نشان کو رکھا ہے۔ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اب ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ مسٹر مودی اور بی جے پی بے شرمی سے اپنے آپ کو فروغ دینے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔‘‘جی 20 کے لیے اس لوگو کے اجرا کے ساتھ ہی ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کنول ملک کا قومی پھول ہے، جو چیلنجز کے دوران ترقی کا عکاس ہے۔ اس لوگو کے نیچے ہندی زبان میں لکھا ہے، ’’گلوب سیارے کے تئیں، لوگوں کی موافقت کے ساتھ اس بھارتی نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے، جو فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا عکاس ہے۔‘‘نقاب کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ لوگ کنول کو بھارت کے قدیم ورثے، یقین اور اس کی فکر کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت جی 20 کی صدارت بحران اور افراتفری کے ایک ایسے دور میں کر رہا ہے، جب دنیا اس صدی میں ایک آنے والی تباہ کن عالمی وبا، تنازعات اور بہت سی معاشی بے یقینیوں کے اثرات سے نمٹ رہی ہے۔(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)
previous post