13.1 C
Delhi
دسمبر 8, 2024
Samaj News

‘سیاست پاکستان میں، جوڑ توڑ لندن میں’

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کرسی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک تین مرتبہ لندن یاترا ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں کے مطابق انہوں نے اس دورے میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے صلاح مشورہ کیے۔ لندن میں نواز شریف سے ملنے والوں میں صرف شہباز شریف ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کئی اہم رہنما بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ صحافی اور دانشور بھی وقتاًفوقتاً لندن کے ایوان فلیڈ اپارٹمنٹس میں واقع ایک فلیٹ پر نواز شریف سے ملتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور شریف فیملی کے کئی دوسرے ارکان بھی لندن میں ہی موجود ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ لندن اور پاکستانی سیاست کا کیا رشتہ ہے۔کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ برطانوی دارالحکومت شروع سے ہی پاکستانی سیاست میں مختلف وجوہات کی بنا پر جلوہ گر رہا ہے۔کراچی میں مقیم تجزیہ نگار زاہدہ حنا کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے 1958ء میں اسکندر مرزا کو جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے لندن میں سکونت اختیار کی۔ ‘انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا’’کیونکہ ہم برطانوی استعمار کے قبضے میں تھے اور ہمارے ان سے تاریخی مراسم تھے تو ہمارے حاکم طبقات کے وہاں پر پہلے سے تعلقات تھے۔ لیکن بعد میں بڑے پیمانے پرسیاسی کارکنان جو لندن گئے اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں سیاسی جبر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور رہنما مختار رانا وہاں پر گئے۔ اس کے علاوہ جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو پیپلز پارٹی کے قائدین نے لندن میں جاکر پناہ لی۔ پی آئی اے کے ورکرز کو جب نکالا گیا، تو ان کی ایک بڑی تعداد بھی لندن گئی۔‘‘معروف تجزیہ نگار اور ڈیلی ٹائمز کے سابق ایڈیٹر راشد رحمان زاہدہ حنا کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا’’ پاکستان میں جب بھی کوئی مارشل لاء لگتا تھا یا حکومت تبدیل ہوتی تھی، تو وہ مخالفین پر جبر شروع کر دی تھی اور اس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو لندن کا رخ کرنا پڑا۔‘‘کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ صرف آمرانہ ادوار میں ہی نہیں ہوا بلکہ جمہوری دور میں بھی ایسا ہوا۔ راشد رحمان کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب کے دور میں لندن پلان کی اصلاح استعمال کی گئی۔ حقیقتاً کچھ پاکستانی طلبا اور مزدور پاکستان واپس آکر ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن بھٹو صاحب کے دور میں اس پلان کی اصطلاح ایجاد ہوئی، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ کچھ بلوچ اور دوسرے رہنما پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی لندن پلان بھی بنایا ہے۔‘‘راشد رحمان کے مطابق بعد میں اس میں بھارت کو بھی جوڑ دیا گیا‘‘۔ اور جب بھٹو کے دور میں عراقی سفارت خانے سے کچھ ہتھیار ملے، تو اس کو بھی اسی سازش سے جوڑ دیا گیا۔‘‘ (ڈی ڈبلیو)

Related posts

سعودی عرب کایوم تأسیس،یوم وطنی اور ہماری توقعات

www.samajnews.in

عامر سلیم خان ؒکی رحلت سے اُردو صحافت کو بڑا خسارہ:طارق صدیقی

www.samajnews.in

ایم سی ڈی انتخاب: ’’کانگریس آئی تو پھر چمکے گی دہلی‘‘

www.samajnews.in