نئی دہلی: بھارتی وزارت داخلہ نے سرحدی ریاست گجرات کے آنند اور مہسانہ میں رہنے والے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندووں، سکھوں، بودھوں، جینیوں، پارسیوں اور مسیحیوں کو بھارت کے شہری کے طور پر اندراج کرانے کی اجازت دے دی ہے۔ شہریت دینے کے حوالے سے یہ فیصلہ بھارت کے شہریت قانون 1955 کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 (سی اے اے) سے کوئی واستہ نہیں ہے۔متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) میں بھی پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھارت آنے والے ہندووں، سکھوں، بودھوں، جینیوں، پارسیوں اور مسیحیوں کو بھارتی شہریت دینے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن چونکہ حکومت اس قانون کے تحت ضابطے ابھی تک طے نہیں کرسکی ہے اس لیے سی اے اے کے تحت اب تک کسی کو بھی شہریت نہیں دی گئی ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ان پاکستانی، بنگلہ دیشی اور افغان ہندووں، سکھوں، بودھوں، جینیوں، پارسیوں اور مسیحیوں کو بھارتی شہری کے طور پر رجسٹریشن کرانے کی اجازت ہوگی جو گجرات کے آنند اور مہسانہ اضلاع میں رہ رہے ہیں۔ انہیں شہریت قانون 1955کے دفعہ 5 یا 6 اور شہریت ضابطے 2009 کے تحت بھارتی شہریت دی جائے گی۔
شہریت حاصل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا:نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں اضلاع میں رہنے والے مذکورہ افراد کو اپنی درخواستیں آن لائن جمع کرانی ہوں گی اور ضلعی کلکٹر ان کی جانچ کریں گے۔ اس کے بعد مرکزی حکومت ان درخواستوں اور ان پر دی جانے والی رپورٹوں پر غور کرے گی۔نوٹیفیکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو کلکٹر درخواست گذار کی جانچ بھی کریں گے۔ یہ کام مقررہ ایجنسیوں کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ پورا عمل مکمل ہوجانے کے بعد اور کلکٹر درخواست دہندہ کی درخواست سے پوری طرح مطمئن ہوجانے کے بعد اسے بھارت کی شہریت کا رجسٹریشن یا نیوٹرلائزیشن سرٹیفیکٹ جاری کر دے گا۔
خیال رہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ایسے ہندووں، سکھوں، بودھوں، پارسیوں، جینیوں اور مسیحیوں کو بھارتی شہریت دینا چاہتی ہے جو 31 دسمبر 2014 تک بھارت میں آ چکے تھے۔ مودی حکومت نے تاہم مذکورہ تینوں ملکوں سے بھارت آنے والے مسلمانوں کو بھارتی شہریت نہیں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
متنازع شہریت ترمیمی قانون:مودی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو دسمبر 2019 میں منظور کرایا تھا اور بعد میں بھارتی صدر نے اس کو توثیق بھی کر دی تھی۔ تاہم اس کے خلاف ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر زخمی ہوئے۔ ان پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے کروڑوں کی مالیت کا نقصان ہوا جب کہ درجنوں افراد اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔مودی حکومت اب تک سی اے اے کو نافذ نہیں کرسکی ہے کیونکہ اس کے ضابطے اب تک تیار نہیں ہوسکے ہیں۔ گوکہ صدارتی توثیق کے بعد چھ ہفتے کے اندر ضابطے تیاری ہوجانے چاہئے تھے تاہم حکومت اس کام کے لیے ضابطہ ساز ی کمیٹی کو جنوری2020 سے اب تک سات مرتبہ توسیع دے چکی ہے۔شہریت ترمیمی قانون بھارت میں ایک بڑا سیاسی موضوع بن چکا ہے اور سیاسی جماعتیں اسے اپنے سیاسی مفادات کے لیے خوب استعمال کر رہی ہیں۔(بشکریہ: DW)
previous post