از : محمد عبد الہادی عمری مدنی(صدر مجلس القضاء الاسلامی، برطانیہ)
ایک مخلص علم دوست وفا شعار ساتھی شیخ محمد عزیر شمس کا 15اکتوبر کی شام مکہ مکرمہ میں 66 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا، موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی بھی ذی شعور کے لئےممکن نہیں اور یہ بھی کوئ نہیں جانتا کب اور کس جگہ وقت مقررہ اپنے چنگل میں لے لے، لیکن بلا شک و شبہہ حسن خاتمہ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ، مقدس سرزمین کعبۃالله کے پڑوس اہل علم اور طلبہ کی محفل میں اچانک دل کا دورہ پڑا اور جان جان آفرین کے سپرد کردی، حصول علم کا طریقہ اور اہمیت بتارہے تھے کہ موت کا پروانہ آگیا۔ اللہ عزوجل علم دین کے اس سپاہی کی مغفرت فرما اور فرمان نبوی کے مصداق جنت میں ٹھکانہ عطا کرے من سلك طريقًا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا الى الجنة حصول علم کی راہ میں اٹھنے والے قدم راہی کے لیے جنت کی راہ ہموار کردیں گے ۔
شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ ہماری شناسائ قدیم اور تعلق گہرا تھا، بات ہے 1978 عیسوی کی جب ہندوستاں کے کچھ طلبہ کا عالم اسلام کی مشہور یونیورسٹی الجامعہ الاسلامیہ میں داخلہ ہوا، ویزا اور تکمیل اجراء کے لئے ہمیں دو ہفتے دہلی میں قیام کرنا پڑا۔ جامعہ دارالسلام کے 12طلبہ، جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ الفلاح بلیریا گنج کے کچھ فارغین اسی مقصد کیلئے دہلی پہنچ چکے تھے، ہم تینوں مدارس کے فارغین کا قیام جماعت اسلامی ہند کے مرکز چتلی قبر میں تھا، ان دنوں جماعت کے امیر محترم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ تھے، حصول ویزا کی کاروائی میں جو تکنیکی مسائل درپیش تھے انہیں حل کرنے کیلئے جامعہ دارالسلام کے معتمد عمومی محترم کاکا محمد عمر رحمہ اللہ دہلی میں قیام فرما تھے، ان کی شخصیت کا رعب کچھ ایسا تھا کہ ایمبسی کے مسائل حل کرنے کیلئے ان سے زیادہ موزوں اس وقت کوئی دوسرا نہیں دکھائی دیتا تھا، کاکا صاحب رحمہ ا للّٰہ حالات کے مطابق لباس زیب تن فرماتے، وہ سفارتخانہ جاتے تو مکمل سوٹ پہن کر جاتے، یہ لباس جنوبی ہند کی دینی درسگاہوں کے فارغین کیلئے اجنبی نہیں تھا، لیکن شمالی ہند کیلئے اچنبھے کا باعث ضرور تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ دینی مدارس کے طلبہ اور منتظمین کو مخصوص وضع قطع میں ہی دیکھنے کے عادی تھے۔ شمالی ہند کے کچھ طلبہ اس لباس پر ہلکے پھلکے اعتراض بھی کرتے لیکن کام سب کا ہورہا تھا مدد سب کی کی جارہی تھی کیونکہ معتمد عمومی کا ظرف وسیع اور سینہ کشادہ تھا وہ نہایت فراخدلی کے ساتھ سب کی مدد کررہے تھے، سلفیہ کے فارغین میں ایک نام ہمارے دوست شیخ عزیر کا تھا جو اپنے ہمجولیوں کو قائل کروا رہے تھے بلکہ عمرآباد کی تعریف میں رطب اللسان تھے کہ کاکا صاحب کا دبدبہ دیکھئے کہ وہ ایمبسی بغیر پیشگی وقت لئے عوامی دروازہ کے بجائے خصوصی گیٹ سے داخل ہوتے ہیں، اور انگریزی میں اس روانی سے گفتگو کرتے ہیں کہ عملہ بھی چپ سادھے ان کے آگے کھڑا رہتا ہے، جبکہ دیگر اداروں کے فارغین کے ساتھ کوئی رہنما اور ذمہ دار تک بھی نہیں، یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی، اسی وقت سے ان کی مردم شناسی اور وسعت ذہنی کی چھاپ دل میں بیٹھ گئی، پھر کاکا صاحب علیہ الرحمہ کی کوشش سے ویزا اور سفر کے مسائل حل ہوگئے،اور شمال و جنوب کے طلبہ مشکور و ممنون سفر حجاز پر روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد داخلہ کی کاروائی شروع ہوئی، اگرچہ ہمارا تعلیمی سال ایک ہی تھا لیکن الگ الگ شعبے، شیخ نے عربی ادب کو اپنایا، میرا شعبہ حدیث تھا، رہائش پہلے دو سال ایک ہی ہاسٹل میں تھی جو مسجد نبوی سے آٹھ دس منٹ پیدل کی دوری پر واقع عمارت غشام میں تھی، یوں ہماری ملاقاتیں باربار ہوتیں۔ اس وقت طلبہ کے ہجوم میں شیخ عزیر کی شان کچھ نرالی سی تھی ،وہ تھے عربی ادب کے طالب علم لیکن کتب حدیث کے حصار میں رہتے، ان کا کمرہ کتب خانہ ہی دکھائی دیتا، ہمارے ایک ملیباری ساتھی وہ کلیہ حدیث کے طالب علم تھے وہاں سے کتابیں زیادہ ملا کرتی تھیں وہ حاصل کرکے شیخ عزیر کے ہاتھ تھمادیا کرتے اور از راہ تفنن کہتے ان میں کیا ہے پڑھ کر مجھے خلاصہ بتا دیجئے۔ کتب بینی کا شوق اتنا کہ ان کے پاس ذاتی سج دھج اور تزئین و آرائش کیلئے وقت ہی کہاں بچا رہتا۔
دوران طالب علمی طبیعت میں جو سادگی تھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد بھی برقرار رہی، غیر عربی طلبہ عربی ادب میں دلچسپی کم رکھتے تھے لیکن شیخ عزیر کا مسئلہ قدرے مختلف تھا کہ دوسرا کوئی طالب علم کلاس میں ان سے سبقت لے جائے یہ تقریباً محال سا تھا، اسی شان اور اعزاز کے ساتھ انہوں نے چار سال مکمل کئے ۔ پھر ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ منتقل ہوئے۔ مسدس حالی کے حوالہ سے اردو شاعری پر عربی اثرات کے موضوع پر ایم فل کرکے ڈاکٹریٹ میں داخلہ لیا اور ہندوستان میں عربی ادب کی ترویج و اشاعت پر ریسرچ کررہے تھے، اپنے مقالہ کی تیاری کے سلسلہ میں برطانیہ کا دورہ بھی کیا، کامیابی سے اپنا مقالہ تیار کر چکے تھے کہ مشرف سوپر وائزر کیساتھ علمی اور تحقیقی نکات پر کچھ اختلافات ہوگئے۔ شیخ عزیر کب اپنی تحقیق سے پیچھے ہٹ سکتے تھے اسی کی زد میں ڈگری ادھوری رہ گئی، کیونکہ مشرف کی منظوری کے بغیر مقالہ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا، طالب علم کیلئے یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی پاسداری ضروری ہوتی ہے، لیکن اس تگ و تاز میں اپنی توانائی ضائع نہیں کی۔ ریسرچ اور تحقیق ہی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا ، گویا
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت ہزار میخانے
اسی یونیورسٹی کے کئی طلبہ اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی تصحیح و تدقیق کیلئے ان سے ہی رجوع کرتے۔ مختلف علمی اداروں کے ساتھ ان کے روابط مضبوط تھے ، وہ سلف صالحین کی کتابوں خصوصا مخطوطات پر مہارت رکھتے تھے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ ا للہ ان کا مرکزی موضوع بن گیا۔ اس میں اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ انہیں اتھارٹی سمجھا جانے لگا۔ ان کے علمی مقام کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ امام حرم الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس صدر امور حرمین شریفین اپنی خاص لائبریری کے محققین کی ٹیم کا انہیں رکن بنانا چاہتے تھے، لیکن امام محترم کی پیشکش پر معذرت کردی کہ علم و تحقیق کی آزاد جولان گاہ میں راہ و رسم کی پابندیوں کا میں متحمل نہیں ہوسکتا۔ امام محترم کی لائبریری کیلئے حاصل کردہ بعض نادر قلمی نسخوں کی نسبت کے بارہ میں شیخ عزیر نے اشارہ کیا کہ یہ جن شخصیات کی طرف منسوب ہیں وہ درست نہیں ان بزرگوں کا یہ رسم الخط ہی نہیں جن کی طرف یہ منسوب ہیں۔ اس تجزیہ پر شیخ حرم بھی خوشگوار حیرت میں پڑگئے کہ جن مخطوطات کو سنبھال کر بڑے جتن سے رکھا گیا تھا ان کی صحت ہی مشکوک ہوکر رہ گئی، مگر شیخ عزیر کی تحقیق کی دھاک کچھ ایسی تھی ان کے خلاف اعتراض آسان نہیں تھا، اسی طرح کی پیشکش انہیں مختلف احباب کی جانب سے ملتی رہی لیکن کسی کا دست نگر ہوکر کام کرنے کیلئے وہ آمادہ نہیں تھے۔ موصوف کی تحقیق سے مختلف کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں اور متعدد مقالات مختلف رسائل و مجلات کی زینت بنتے رہے۔ امام ابن تیمیہ پر ان کی کتاب الجامع لسیر، شيخ الاسلام ابن تيمی، دار عالم الفوائد سے شائع ہوکر علمی حلقوں سے داد تحسین حاصل کرچکی ہے۔ گویا یہ امام ابن تیمیہ کے متعلق عربی زبان میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ مجھے ایک سیٹ بطور تحفہ پیش کیا۔ مشقت کے ساتھ اٹھا کر مکہ مکرمہ میں میری رہائش گاہ تک لے آئے اور میں اپنے دوست کی کاوش اور امام ابن تیمیہ جن کے ساتھ والہانہ تعلق ہے کی عقیدت اور وابستگی کے باعث برمنگھم اپنے گھر لے آیا۔
علوم دینیہ کے رسیا زیارت حرم کے موقع پر موصوف کے ساتھ ملاقات کو بھی اپنے ٹائم ٹیبل میں شامل رکھتے۔ ہماری جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد سالا نہ ملاقات حج کے موقع پر ہوا کرتی اور دیر تک مختلف علمی موضوعات زیر بحث رہتے۔ مجھے علامہ احمد شاکر کی طلاق کے متعلق کتاب کی تلاش تھی جو اس وقت بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ فوری اس کی زیراکس کرواکر پیش کردیا۔ ایک مرتبہ دوسری کتاب کی ضرورت تھی کہنے لگے کہ اس کے محقق ہمارے دوست ہی ہیں میرے یہاں ایک نسخہ ہے وہ آپ لے لیجئے۔
ان کی اپنی ایک دنیا تھی۔ علمی اور تحقیقی میدان میں وہ عوامی مجلسوں اور اجتماعات سے بڑی حد تک دور رہتے، دینی جماعتوں کے درمیان جاری رسہ کشی پر کڑھتے اور بعض علماء و مشائخ جو سنی سنائی باتوں پر ا اظہار خیال کرنے لگتے ہیں ، وہ کہا کرتے کہ انہیں جرح و تعدیل کے اصول اپنانا چاہئے ، کسی کے ساتھ آپ کے ذاتی تعلقات ہوں یا کوئی رابطہ کرنے میں تیزی دکھائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی باتیں بھی درست ہیں۔ خصوصا معاملہ جب کسی جماعت یا ادارہ کے متعلق ہو اس میں فریق نہ بنئے ورنہ پہلے ضروری تحقیق کر لیجئے۔ ہند و پاک کے دینی مدارس کی اہمیت باقی رکھنے اور مزید افادیت کیلئے منتظمین کی توجہ مبذول کرواتے رہتے، وہ طلبہ اور اساتذہ میں فکری جمود کے مخالف، اعتدال اور توسع کے خوگرتھے۔ اللہ تعالی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا کرے۔
اجڑ کر بھی محبت کے زمانے یاد رہتے ہیں
اجڑ جاتی ہے محفل مگر چہرے یاد رہتے ہیں