13.1 C
Delhi
دسمبر 8, 2024
Samaj News

دہلی فسادات: نفرت انگیز تقاریر، تشدد اور فیس بک لائیو، اہم شخصیات کی ’زہر فشانی‘ پر تماش بین بنا رہا سسٹم

وشو دیپک کی رپورٹ

بی جے پی، اس کے اتحادیوں اور حکومت سے وابستہ اہم شخصیات کے لیے مسلمانوں اور حکومت کے ناقدین کو طفیلی، دیمک، دہشت گرد، غدار اور شہری نکسل کہنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2014 کے بعد اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ پولس اور عدالتوں نے گویا اس جانب آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ’این ڈی ٹی وی‘ کے ‘وی آئی پی ہیٹ ٹریکر‘ نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ 2014 کے بعد 80 فیصد اشتعال انگیز تقاریر بی جے پی کے وزرا، ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کی جانب سے کی گئیں۔اس طرح کی شکایت موصول ہونے پر پولس یہی جواب ہوتا ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں ہے یا معاملہ زیر تفتیش ہے! اس کے بعد ایسے اہم اشخاص خود بھی یہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں کسی برادری یا شخص کا نام نہیں لیا۔ نفرت انگیز تقاریر کے تناظر میں خود وزیر اعظم بھی اس وقت ملوث ہو جاتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ شرپسندوں کو ان کے کپڑوں سے آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے!
حالیہ دو واقعات کی وجہ سے نفرت انگیز تقریر ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ ایک، قومی راجدھانی میں بی جے پی کے لیڈروں کی زہر فشانی اور دوسرا، فروری 2020 میں دہلی فسادات پر ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹس نے ایک تنظیم کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ (سی سی جی) کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ ‘ان سرٹین جسٹس (غیر متوقع انصاف) جاری کی۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش صاحب سنگھ نے حال ہی میں دہلی میں ایک تقریب کے دوران کہا ’’ہم ان کی دکانوں سے کچھ نہیں خریدیں گے۔ ہم انہیں کوئی کام نہیں دیں گے… ان کے ٹھیلے سے سبزیاں نہیں خریدیں گے… اگر ہم انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان کا مکمل اقتصادی بائیکاٹ کرنا پڑے گا۔‘‘ اتر پردیش کے بی جے پی کے رکن اسمبلی نند کشور گرجر نے اسی تقریب کے وران کہا ’’ہمارا خوبصورت شہر خنزیروں کا شہر بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
ان الفاظ سے واضح ہے کہ یہ الفاظ ایک خاص برادری کے لیے کہے گئے تھے لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے ‘دی انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے کسی مذہبی برادری کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ان ’خاندانوں‘ کا ذکر کر رہے تھے جن کا اس علاقے کے رہائشی منیش نامی شخص کو چاقو مارنے میں ہاتھ تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ وضاحت کسی بھی لحاظ سے قابل اعتبار نہیں ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا یہ لوگ واقعی قانون سے بالاتر ہیں؟ اور ایسا اس وقت ہو رہا ہے جب تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 اے مذہب، نسل، ذات یا زبان کی بنیاد پر گروہوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے والے بیان اور اقدامات کو قابل سزا جرم قرار دیتی ہے اور ایسا کرنے والے کو تین سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ایک طرف دہلی پولس پرویش ورما، نند کشور گرجر اور سنت مہنت جیسے لوگوں کے خلاف ان کی زہر فشانی کے لیے کوئی کارروائی نہیں کرتی اور دوسری طرف وہی پولس سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیتی ہے۔
‘غیر یقینی انصاف رپورٹ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکر کی سربراہی میں ایک پینل کی نگرانی میں تیار کی گئی ہے اور اس پینل میں دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس اے پی شاہ، دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس آر ایس سوڈھی، پٹنہ ہائی کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس انجنا پرکاش، سابق ہوم سکریٹری جی کے پلائی جیسے لوگ شامل ہیں۔ دہلی فسادات پر مرکزی وزارت داخلہ کا موقف، دہلی پولس کی تحقیقات، پیش کیے گئے ثبوتوں پر عدالت کے تبصرے وغیرہ رپورٹ کا حصہ ہیں اور اس میں میڈیا کے کردار کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔چونکہ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں زیر التوا ہے، اس لیے رپورٹ میں ملزمان کے خلاف مقدمہ کی میرٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے لیکن رپورٹ کا عنوان اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے۔ رپورٹ میں فسادات سے پہلے بڑے لیڈروں کی نفرت انگیز تقاریر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں پرویش صاحب سنگھ ورما کے 28 جنوری 2020 کو نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیے گئے ویڈیو انٹرویو کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے بارے میں کہا تھا، "آج سے کچھ سال پہلے کشمیر میں آگ لگی تھی، جب کشمیری پنڈتوں کی بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی تھی۔ اس کے بعد یوپی میں آگ لگتی رہی ، حیدرآباد میں لگتی رہی، آج وہ آگ دہلی کے ایک کونے میں لگ گئی ہے۔ یہ لوگ آپ کے گھروں میں گھسیں گے، آپ کی بہن بیٹیوں اٹھائیں گے، ان سے ریپ کریں گے۔ لہذا آج وقت ہے، کل مودی جی اور امت شاہ بچانے نہیں آئیں گے!‘‘
خیال رہے کہ پارلیمنٹ میں 11 دسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور دوسری طرف اس اے اے مخالف مظاہرین بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کیا جا رہا تھا۔ یہ سب کچھ 8 فروری کو دہلی میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر بھی ہو رہا تھا۔ بی جے پی لوگوں کو یہ پیغام دیتی رہی کہ سی اے اے کی حمایت کرنا تمام محب وطن ہندوستانیوں کی ذمہ داری ہے اور یہ سب کرتے ہوئے اس نے مسلمانوں کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے 20 جنوری 2020 کو سی اے اے کی حمایت میں ریلی نکالی اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے کہا ’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو!‘ پھر 27 جنوری کو مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے بھی یہی نعرہ لگایا۔ اس کے بعد بی جے پی کے اس وقت کے جنرل سکریٹری ترون چُگ ٹوئٹ کرتے ہیں ’’ہم دہلی کو شام نہیں بننے دیں گے اور نہ ہی انہیں آئی ایس آئی ایس جیسا ماڈل چلانے دیں گے جس میں خواتین اور بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم دہلی کو کسی قیمت پر جلنے نہیں دیں گے‘‘
کالم نگار اور ’سی ایس ڈی ایس‘ کے پروفیسر ابھے دوبے کو ان سب واقعات میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جنگی حکمت عملی تیار کرنے والوں کی طرح انہوں نے جگہ جگہ تنازعات کے علاقے تیار کر دئے ہیں، کہیں لو جہاد کے نام پر، کہیں مدرسہ سروے کے نام پر، کہیں حجاب پر پابندی کے نام پر! مقصد ایک ہی ہے کہ فرقہ واریت کی آگ چلتی رہنی چاہئے۔‘‘ دوبے واضع طور پر کہتے ہیں کہ یہ سب بی جے پی اور آر ایس ایس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔وشو ہندو پریشد سے وابستہ لوگوں نے اس طرح کی فرقہ وارانہ تقریر کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں اور لبرلز کو سوچنا چاہیے کہ ہندو آخر ایسی زبان استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہو گئے؟
’ان سرٹین جسٹس‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ فسادات کیسے اور کس نے بھڑکائے۔ بی جے پی اور قوم پرست ہندو گروپوں نے 23 اور 24 فروری کو لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے فیس بک لائیو کا استعمال کیا۔ 23 فروری کو صبح 8.21 بجے سنجیو شرما نے اپنے فالوورز سے کہا کہ وہ سی اے اے مخالف احتجاجی مقامات کی طرف جانے والی سڑکوں کو بلاک کر دیں اور وہاں کھانا وغیرہ لے جانے کی اجازت نہ دیں۔ صبح 10.46 پر انوپما پانڈے نے فیس بک پر پیغام دیا کہ ‘ہندو بھائی بڑی تعداد میں موج پور چوک پہنچیں۔ وہ چلّاتی ہے ’’جب تک وہ آپ کے گھر کی طرف جانے والی سڑکیں بند نہیں کر دیتے، اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں۔ 100 کروڑ لوگوں کو شرم آنی چاہئے!‘‘ انجلی ورما رات 11:27 پر لکھتی ہیں ’’گرہ یودھ (خانہ جنگی) کی کرو تیاری، تب سدھریں گے ملّے ٹوپی دھاری۔‘‘رپورٹ میں ایسے تمام واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ فسادات کہاں سے اور کیسے پھوٹ پڑے۔

(فیس بک اور رپورٹ ’ان سرٹین جسٹس‘ کے حقائق پر مبنی)

Related posts

43سالہ ر فاقت کاخاتمہ

www.samajnews.in

جیو 5جی لانچ

دسہرے پر کچھ اہم شہروں کو ملے گی سروس:

www.samajnews.in

فیفا ورلڈ کپ: اسلامی تعلیمات متعارف کرانے کا موقع ہے: قطر

www.samajnews.in