ایران، سماج نیوز: ایران میں شروع ہوا مظاہرہ آج چوتھے ہفتے میں داخل ہوگیا اور ملک کے اکثر شہروں تک پھیل گیا اور مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً 200 کے قریب تک پہنچ گئی ہے۔ ایران میں پولس کے زیرحراست نوجوان خاتون کی ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا ہے جبکہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ بدامنی کے واقعات اور سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 19 کم سن بچّوں سمیت 185 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔کرد اکثریتی شہرسقزمیں 17ستمبر کو22 سالہ مہسا امینی کے جنازے کے موقع پر شروع ہونے والے مظاہرے ایران کے مذہبی رہنماؤں کے لیے برسوں میں سب سے بڑا چیلنج بن گئے ہیں اور مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ناروے سے تعلق رکھنے والی غیرسرکاری تنظہم ایران ہیومن رائٹس نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ سیستان ،بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ان کی تعداد ریکارڈ کی گئی کل ہلاکتوں کا نصف ہے۔اس تنظیم نےایران بھر میں 19 بچوں سمیت 185 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ایرانی سکیورٹی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ بھی کررہی ہیں لیکن ایرانی حکام نے ان مظاہروں کو امریکاسمیت ایران کے دشمنوں کی سازش قرار دیتے ہوئے مسلح مخالفین پر تشدد کا الزام عاید کیا ہے اور تشدد کے واقعات میں سکیورٹی فورسز کے کم سے کم 20 ارکان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کوعلی الصباح ایران کے درجنوں شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں ہائی اسکول کی سیکڑوں طالبات اور جامعات کی طالبات احتجاجی مظاہروں میں شرکت کررہی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز ان کے خلاف اشک آورگیس، ڈنڈوں کا استعمال کررہی ہیں اور بعض علاقوں میں براہ راست فائرنگ کررہی ہیں۔سماجی کارکن تصویر1500 کی جانب سے ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص چیخ رہا ہے کہ ’میری بیوی کو مت مارو‘ وہ حاملہ ہے۔ دیگر ویڈیوز میں مظاہرین کو تہران کے جنوبی حصے میں بعض سڑکوں کو بلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹوں میں کہا گیا ہے کہ کارکنوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ہڑتال کی اپیل کے بعد کئی شہروں میں دکانیں بند کردی گئیں۔حکام نے انٹرنیٹ پر جزوی پابندی عاید کررکھی ہے جس کی وجہ سے پُرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تفصیل آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہے۔