ترتیب و پیشکش
زاہدآزاد جھنڈانگری، نیپال
آہ! رخصت ہوگیا علم وادب کا تاجدار
جن کی تخلیقات ہے بے باکی کی آئینہ دار
نکہت گل کی طرح پاکیزہ تھا جس کا شعور
’مشرقی تہذیب‘ سے قلب و نظر تھا آشکار
نظم و یا نثر ہو لکھتے تھے لکھنے کی طرح
ہاں ’منور رانا‘ تھے اک منفرد تخلیق کار
شعر کہتے تھے ہمیشہ ’بربریت‘ کے خلاف
جانتے تھے باغیوں میں میرا بھی ہوگا شمار
غم کی تاریکی میں تابانی کبھی کھوئی نہیں
آپ تھے ’شمع محبت‘ کی شعاع زر نگار
جی حضوری سے منور رانا کوسوں دور تھے
عزت و شہرت کی خاطر ہے مقام شرمسار
ماں کی عظمت کو اجاگر اپنے شعروں سے کیا
اس لیے کہ مائیں ہوتی ہیں غموں کی پاسدار
خود کو لکھتے تھے عوامی زندگی سے جوڑ کر
گیسوئے اردو غزل بھی آپ سے ہے تاب دار
جب اجل کا وقت آیا تم بھی’ رانا‘چل بسے
تیرے بن بزم ادب ہے آج انصر سوگوار
شریک غم
انصر نیپالی