23.1 C
Delhi
جنوری 23, 2025
Samaj News

جمعیۃ علمائے ہند کا مقصد ملک کی آزادی تھا جو حاصل کیا

ملک کے سماجی تانے بانے سے چھیڑچھاڑ، ملک کے جمہوری ڈھانچہ کیلئے ایک بڑاخطرہ: مولانا ارشدمدنی

نئی دہلی، (پریس ریلیز؍سماج نیوز) جمعیۃ علمائے ہند کی ملک میں فلاحی،سماجی، تعلیمی اور بازآبادکاری خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃ علمائے ہند کا مقصد ملک کی آزادی تھا جو حاصل کیا۔یہ بات انہوں نے آج یہاں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں اس سوال کے جواب میں کہا جس میں ان سے آر ایس ایس اور جمعیۃ علمائے ہند کے مقصد کے تعلق سے سوال کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علمائے ہند کا قیام ہی ملک کی آزادی کی جدوجہد کیلئے ہوا تھا۔ 1857میں دہلی 33ہزار سے زائد علمائے کرام کو پھانسی دی گئی تھی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا کی جیل سے واپسی پر کہا کہ جس دن ہندو، مسلم اور سکھ ایک میدان میں آجائیں گے تو ملک کی آزادی مشکل نہیں ہے ۔ ہمارا مقصد ملک کی آزادی تھا حاصل کیا اور آر ایس ایس کا مقصد جو ہے وہ حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے بابری مسجد کے تعلق سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ضمن میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر نہیں ہوا ہے ۔ سپریم کورٹ نے مندر توڑ کر مسجد بنانے کی بات تسلیم نہیں کیا۔ متھرا میں شاہی عیدگاہ کے سوال پر کہا کہ عبادت گاہ قانون کے یہ معاملہ نہیں اٹھایا جانا چاہئے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جو بھی قانونی راستہ ہوگا اختیار کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں کسی کی جگہ پر عبادت گاہ بنانا جائز نہیں۔ انہوں نے متھرا میں سروے کے بارے میں کہا کہ اگر صحیح سروے ہوگا توہمارے حق میں ہوگا۔
دارالعلوم دیوبند میں وزیر اعظم نریندر مودی کو مدعو کئے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دارالعلیم دیوبند کی تاریخ رہی ہے کہ وہ کسی کو مدعو نہیں کرتا۔ جو لوگ بھی گئے ہیں خواہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی ہوں یا سابق صدر جمہوریہ راجندر پرساد ہوں وہ خود گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی دارالعلوم دیوبند میں آنا چاہیں ان کا خیرمقدم ہے ۔مولانا مدنی نے ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کے سماجی تانے بانے سے چھیڑچھاڑ ملک کو تباہ کردے گی، اس طرح کی کوئی بھی کوشش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے ۔ ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب اورتہذیبوں کا مرکز رہاہے ، امن واتحاد، رواداری اس کی روشن روایت رہی ہے مگراب کچھ طاقتیں اقتدارکے زعم میں صدیوں پرانی اس روایت کو ختم کرنے کے درپے ہیں، امن واتحادسے زیادہ انہیں اپنا سیاسی مفاداوراقتدارعزیزہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن نئے نئے مذہبی نوعیت کے ایشوزکو اچھال کر امن واخوت کی زرخیززمین میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اس سماجی تانے بانے کو اب توڑدینے کی سازش ہورہی ہے جس نے اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک ساتھ جوڑکے رکھا ہواہے ، یہ ایک ایسی ڈورہے جو خدانخواستہ اگر ٹوٹ گئی تو نہ صرف ہماری صدیوں پرانی تہذیب کیلئے یہ ایک بڑاخسارہ ہوگابلکہ یہ روش ملک کو تباہی اوربربادی کی اس راہ پر ڈال دے گی جہاں سے واپسی آسان نہ ہوگی‘۔

جمعیۃعلماء ہند کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسے ایک صدی قبل ملک کی آزادی کیلئے علماء نے ایک پلیٹ فارم کے طورپرقائم کیا تھا چنانچہ علماء نے پوری قوت کے ساتھ آزادی وطن کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کرجیلوں کوآبادکرتے رہے اورپھانسی کے پھندے پر لٹکتے رہے ، جان وطن عزیز ہندوستان کیلئے دیتے رہے یہاں تک کہ ملک آزادہوگیااورملک آزادہوتے ہی جمعیۃعلماء ہند نے اپنے آپ کوسیاست سے الگ کرلیا،لیکن چونکہ اس کے اغراض ومقاصدمیں ملک کی سالمیت، اتحاداوربھائی چارہ کے فروغ کو اولیت حاصل ہے ، اس لئے آزادی کے بعد مذہب کی بنیادپر ملک کی تقسیم کی اس نے پوری طاقت سے مخالفت کی تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے بزرگوں کے مرتب کردہ رہنمااصولوں پر آج بھی عمل پیرا ہیں وہ اپنا ہر کام مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے ، حال ہی میں میوات میں جن بے گھروں کو گھروں کی تعمیر کیلئے زمین اورامدادی رقم فراہم کی گئی ہے ان میں تین ہندوخاندان بھی شامل ہیں، یہ تنظیم برسوں سے میرٹ کی بنیادپر ہر سال ضرورت مند بچوں کو اسکالرشپ دے رہی ہے اس میں بڑی تعدادمیں ہندوبچے بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے کہ جمعیۃعلماء ہند کا بنیادی مقصدانسانیت کی فلاح اوربہودکیلئے کام کرنا ہے ۔ میڈیا کے کچھ نمائندوں سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھاستون کہاگیاہے ، اس لئے اب وقت آگیاہے کہ ملک کا پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکاایک بڑاحلقہ ایمانداری سے اپنا محاسبہ کرے اوراس بات کا جائزہ لے کہ پچھلے کچھ برسوں سے اس نے اپنے لئے جو لائن اختیارکی ہے آیا وہ صحیح ہے یاغلط اور کیا یہ لائن ملک کے مفادمیں ہے ؟
مولانا مدنی نے پارلیمنٹ میں ہوئی حالیہ دراندازی اورہنگامہ آرائی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا لیکن میڈیانے اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔ بلاشبہ یہ ایک سنگین معاملہ تھا مگرمیڈیانے کوئی سوال نہیں کیا،لیکن اگر ساگر شرماکی جگہ کوئی شکیل احمد ہوتاتویہی میڈیا آسمان سرپر اٹھالیتااورجرم کرنے والوں پر ہی نہیں بلکہ ایک پوری کمیونٹی پر زمین تنگ کردی جاتی، آئین کی بالادستی کے حوالہ سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست کے نام پر اب جوکچھ ہورہاہے اس سے آئین کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگ چکاہے ، سوال یہ ہے کہ جس آئین کی دہائی دی جاتی ہے یہ کوئی نیاآئین ہے یاپھر وہ ہے جسے آزادی کے بعد تیارکیا گیا تھا، اگر یہ آزادی کے بعد لایاگیا آئین ہے توپھر ہمیں یہ تسلیم کرناپڑے گاکہ اب جس طرح ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اورتفریقی رویہ اختیارکیا جارہاہے یہ سراسرغلط اورملک کے امن واتحادکیلئے انتہائی تباہ کن ہے ، انہوں نے آگے کہاکہ ملک کا آئین اپنے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتاہے ، اس میں تمام شہریوں کو یکساں اختیاردیئے گئے ہیں اورکسی بھی شہری یا فرقہ یا طبقہ کے خلاف امتیازی رویہ اختیارکئے جانے سے منع کیا گیا ہے ، مگر ہویہ رہاہے کہ ایک مخصوص فرقہ کو احساس کمتری میں مبتلارکھنے کی غرض سے آئین کے فراہم کردہ تمام اختیارات اس سے چھین کر اکثریت کو خوش کرنے کی پالیسی پر کھلے طورپر عمل ہورہاہے ، ایک ایشوختم نہیں ہوتاکہ کوئی دوسراایشواٹھاکر ایسا پروپیگنڈہ شروع کروادیا جاتاہے جس سے فرقہ وارانہ صف بندی قائم رہے ، آئین ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کرتاہے اس کے باوجود تسلسل کے ساتھ یکساں سول کوڈلانے کا شوشہ چھوڑاجاتاہے ۔انہوں نے کہا کہ دوسرے جرائم کیلئے آئی پی سی کی جو دفعات وہ تمام شہریوں پر یکساں طورپر نافذکی جاتی ہیں، البتہ خانگی معاملات خاص طورپر شادی بیاہ، طلاق وغیرہ کے ضابطے الگ الگ ہیں اوریہ صدیوں پرانے ہیں، خودہندوں میں مختلف برادریوں میں شادی اورطلاق کے الگ الگ طریقہ اوررسومات رائج ہیں، مگر اس سے ملک کے امن وسلامتی پر کبھی کوئی خطرہ نہیں پیداہوا، یکساں سول کوڈلانے کا مطلب یہ ہے کہ سب کیلئے خانگی قانون ایک جیساہوگا، لیکن تاثریہ دیاجاتاہے کہ یہ مسلمانوں کیلئے ہی لایا جارہاہے ۔گیان واپی مسجد کو لیکر آئے حالیہ فیصلہ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہمیں یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہواتووہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گالیکناب جس طرح یہ نیاتنازعہ کھڑاکیاگیاوہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ ایسی کسی بھی عبادت گاہ اب کوئی تنازعہ نہیں کھڑاکیا جائے گاجو 1947سے موجودہے ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جمعیۃعلماء ہند اس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جائے گی توانہوں نے جواب دیا کہ قانون نے ہمیں جہاں تک جانے کا راستہ دیاہے ہم وہاں تک جائیں گے ، سیکولرپارٹیوں کی اس کو لیکر خاموشی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی یہ قانون لے کر آئی تھی اسے بہرحال اس پر بولنا چاہئے ، فلسطین تنازعہ پر بعض صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ تاریخ کو جانناضروری ہے اسرائیل نے وہاں غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اورغزہ کے لوگ اپنی زمین کو آزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں دہشت گردکہنا غلط ہے ۔ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیں کئے گئے سوالات کے جوابات میں انہوں نے کہاکہ سیکولرزم کامطلب یہ ہے کہ مملکت کا کوئی مذہب نہیں ہوگامگر افسوس کہ اب ملک میں سب کچھ اس کے الٹ ہورہاہے ۔ مولانا مدنی نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ اب ملک کے تمام شہریوں کو نہیں اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست ہورہی ہے ، ملک کے سیکولرڈھانچہ اورجمہوریت کیلئے یہ تباہ کن ہے ،انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہمیں تھال میں سجاکر آزادی نہیں پیش کی بلکہ اس کیلئے ہمارے اکابرین کو بے پناہ قربانیاں دینی پڑی ہیں، اس قربانی میں بلالحاظ مذہب وملت سب شامل تھے ، ہمارے پاس افرادی قوت اورصلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ضرورت یہ ہے کہ اس قوت اورصلاحیت کامثبت استعمال کیا جائے ، مگر اب نفرت اورتفریق کی یہ جوسیاست شروع ہوئی ہے یہ ملک کو ترقی نہیں تباہی کے راستہ پر لے جانے والی ہے ۔

Related posts

دشمن بڑا شاطر ہے وہ قاتل بھی ہے اور فریادی بھی

www.samajnews.in

ہم بابری مسجد کی شہادت کو کیسے بھول جائیں

www.samajnews.in

مدرسہ اسلامیہ الطاف العلوم سداماپوری، وجے نگر غازی آباد میں دستاربندی کا انعقاد

www.samajnews.in