سہارنپور، سماج نیوز:( احمد رضا) گجرات ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مہذب عوام کو راحت ضرور ملی ہے مگر نفرت پھیلا کر ووٹ کی سیاست کرنے والے افراد کو ہا ئی کورٹ کا فیصلہ برداشت نہیں ہو رہا۔ اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کی جیت میں اذان کے استعمال کے لئے لگائے گئے اسپیکر اتروانے کے عمل نے اور حلال سر ٹیفکیٹ کو غیر قانونی قرار دئیے جانے کے ایکشن سے کافی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کانگریس کے لیڈران آج بھی دستور میں اقلیتی فرقوں کو حاصل بنیادی حقوق پر کھل کر سامنے آنے سے خوفزدہ رہتی ہے، اس لئے ہی راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ جب تک آپ سچّائی سے منھ پھیر تے رہیں گے تب تک آپ پورے ملک کے عوام کے ساتھ سے محروم ہی رہیں گے۔ یاد رہے اقلیت کمزور ہے لاٹھی گولی سے بچنا چاہتی ہے مگر قطعی طور سے بزدل نہیں ہے جو کچھ ظلم اور جبر ہورہاہے اس سے سبھی بہ خوبی واقف ہیں۔اذان سے کسی بھی انسان کو آج تک کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا ہے اگر نقصان پہنچا ہے تو تیز آواز سے بجنے والے اسپیکرس سے ہی عوامی زندگی کو نقصان پہنچا ہے۔ سرکار اذان کی بجائے صبح شام تیز آواز سے بجنے والے اسپیکر س پر پابندی عائد کر ے، صرف اذان سے ہی نفرت کیوں؟
سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے صاف صاف کہا کہ ہماری مسجدوں سے بلاوجہ لا ؤڈ اسپیکر اتروانہ سیدھے طور سے سیاسی من مانی اور نفرت کی سیاست کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ مسلمانوں کے بعض رجسٹرڈ اداروں کے ذریعہ حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو غیر قانونی قرار دینے والا سرکاری فیصلہ بھی سیدھے طور سے مسلم طبقہ پر سرکار کی دباؤ بنانے والی سیاست کا ہی نفرت بھرا عمل ہے۔ مساجد سے زبردستی لا ؤڈ اسپیکر اتروانے اور حلال کو غیر قانونی عمل بتانے والے ایکشن کی سبھی معزز شخصیتوں نے مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی پر ذبردست تنقید کی۔ واضح رہے کہ کل ہی گجرات ہا ئی کورٹ کی بنچ نے لا ؤڈ اسپیکر سے اذان دینے کے خلاف بھاجپا اور ہندو افراد کے ذریعہ پیش کی گئی عرضی کو خارج کرتے ہوئے قابل احترام ججوں نے حکم صادر کیا کہ مندر اور مساجد میں اسپیکر استعمال کر نے کی روایت کافی پرانی ہے اس عمل سے کسی کو کچھ بھی دقعت یا نقصان نہیں پہنچا ہے اسلئے اسپیکر سے اذان پڑھنے پر پابندی لگا نا ضروری نہیں ہے جو روایت چلی آرہی ہے اس پر اعتراض ناقابل قبول ہے۔ مسلم وکلاء ویلفیئر تنظیم کے سربراہ محمد علی ایڈوکیٹ ، جمال صابری ایڈوکیٹ اور بابر وسیم ایڈوکیٹ نے سرکاری مشینری کے عمل کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے اس کاروائی کو روکنے کی مانگ کی اور آئینی بالادستی قائم رکھ نے پر زور دیا اس کے علاوہ قابل احترام مسلم نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مطابق یہ فیصلہ مذہبی معاملات اور مذہبی آزادی میں سیدھی مداخلت اور ملک کے مفاد کے منافی ہے اس عمل کو فوری طور سے مسترد کیا جائے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس بھی گذشتہ دنوں ایک پریس بیان میں کہ چکے ہیں کہ اسلام نے اپنے متبعین کے لئے کھانے پینے اور رہن سہن کے کچھ آداب اور ضوابط متعین کئے ہیں جس کی پابندی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ ایسا ہی معاملہ دیگر مذاہب کا بھی ہے۔ خورد و نوشت کے معاملے میں اسلام کے اصول بہت واضح ہیں۔ بعض چیزیں مکروہات کے دائرے میں آتی ہیں تو بعض قطعی حرام ہیں جن سے بچنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ مسئلہ صرف ذبیحہ اور غیر ذبیحہ تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت ساری مصنوعات ایسی ہوتی ہیں جن میں ان چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے جو اسلام میں حرام کے درجہ میں آتی ہیں جن سے بچنا ہر مسلمان کے لئے بے حد ضروری ہے، جیسے شراب اور سور کا گوشت یا چربی وغیرہ۔ جس طرح مسلمانوں میں حلال اور حرام کی اصطلاح رائج ہے اسی طرح ہندؤں کے یہاں شُدھ اور اشُدھ کی اصطلاح ہے اور دیگر مذاہب میں دیگر اصطلاحات انہوں نےکہا کہ اسی طرح جو کمپنیاں اس میدان میں کام کررہی ہیں وہ سب حکومت کے ضوابط کے تحت رجسٹرڈ ہیں، اتنا ہی نہیں خود وزارت برائے کامرس نے بھی ایسا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی کیا ہوا ہے۔ حلال سرٹیفکیٹ صارف کو یہ بتاتا ہے کہ آیا کوئی پروڈکٹ حلال مانے جانے کی ضروریات ومعیارات پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ ہندوستان میں حلال مصنوعات کی تصدیق کے لئے کوئی سرکاری ریگولیٹری ادارہ نہیں ہے بلکہ مختلف حلال سرٹیفیکیشن ایجنسیاں ہیں جو مصنوعات یا کھانے پینے کے اداروں کو حلال سرٹیفکیٹ فراہم کرتی ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت مسلم ہے صارفین کے درمیان، ان کے نام کی شناخت کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک میں بھی ریگولیٹرز کی جانب سے پہچان میں مضمر ہے۔ اب دنیا بھر میں بالخصوص مغربی ممالک میں حلال پرو ڈکٹس اور حلال سرٹیفکیٹ کا چلن بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خود ہندوستان سے جو گوشت مشرق وسطی کے ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے اس پر اس کی تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ حلال طریقہ پر ذبح کیا ہوا ہے۔ حلال سرٹیفائیڈ ہونے سے ہندوستانی مصنوعات کو لے کر ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے برآمدات میں تعاون اور کاروبار میں منافع ملتا ہے۔حلال سرٹیفیکیشن پر پابندی لگاکر دراصل یوگی حکومت ہندوستانی مصنوعات کی مسلم و دیگر ممالک میں بر آمدات کو متأثر کرے گی اور اس سے صرف ان کمپنیوں کو ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان کی معیشت اور زرمبادلہ کا کاروبار بھی شدید طور متأثر ہوگا۔ مودی اور یوگی حکومتوں کو اپنے سیاسی فائدہ اور ہندو مسلم منافرت کے ایجنڈے سے اوپر اٹھ کر ملک کے مفاد اور مذہبی آزادی کے دستوری تقاضے کو ہی ترجیح دینی چاہئے ملی رہبر ڈاکٹر الیاس نے آگے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ یوگی حکومت اپنے اس دستور مخالف عمل کو فوری طور سے بند کر ے۔