عارف خان(شعبۂ ہندی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی)
نئی دہلی، سماج نیوز: ہندی اردو، ہند آریائی شاخ سے نکلی ہوئی زبانیں ہیں۔ ان کے علاوہ اس شاخ میں اور بہت سی مختلف زبانیں ہیں لیکن ہندی اور اردو زبان ہندوستانی ثقافت کی جس طرح عکاسی کرتی ہیں وہ دوسری زبانوں میں اس قدر نہیں ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کا استعارہ کہی جانے والی یہ دونوں زبانیںاعلیٰ ادب سے مالا مال ہیں۔ ایک طرف میر ،غالب، ذوق ، سودا اور فیض ہیں تودوسری جانب تلسی داس، کبیر، سُورداس،ملک محمد جائسی،نرالہ اوراگّیںوغیرہ ہیں۔
ہندی اور اردو زبان کے حوالے سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ اس لیے زبان کی بنیاد پر ہندی اور اردو کی تاریخ، اختلافات اورتنازعات وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن یہاں ہندی-اردو کے ایک بہترین شاعرپروفیسررحمن مصور کی لسانی غیر جانبداری موضوع بحث ہے۔ ہندی زبان وادب کا پروفیسر ہونے کے باوجود اردو سے ان کا عشق کمال کی انتہا پر ہے۔اردو کی کلاسیکی شاعری پر جس قدر ان کی نگاہ ہے ، اس کا عکس ان کی شاعری میں پوری طرح نظر آتا ہے۔ اردو ادیبوں نے بھی ہندی زبان کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں پرویا ہے بالکل اسی طرح رحمن مصور نے اپنی شاعری میں ہندی کے الفاظ اس قدر خوبصورتی سے شامل کیے ہیں کہ وہ الفاظ ان کا اٹوٹ انگ بن گئے ہیں، جن کے بغیر شعر کا حسن کم کم محسوس ہوتا ہے۔
چند مہمل سی سرگوشیوں سے پرے خامشی کی ردا میں ہیں لپٹے ہوئے
لب بہ لب ہوگئے جب زمیں آسماں چاند ابھراافق پر چمکتے ہوئے
آنکھ میں جگمگائی ہوئی خواہشیں نیم شب شرم کی جھالریں بن گئیں
کامنائیں دلہن بن کے اترا رہیں کارچوبی شرارہ سنبھالے ہوئے
رحمن مصور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ ہندی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ایک کثیرجہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی مہارت’ہندی-اردو کا تقابلی مطالعہ، ابلاغ عامہ اور جدید ہندوستانی ادب‘ میں ہے۔ رحمن مصور نے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں نمایاں کام کیا ہے۔ ’پاکستانی اردو کتھا ساہتیہ میں بھارتیہ متھک‘ان کی تخلیقات میں اہم ہے۔ صنف شاعری میں غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے۔ غزل اردو کی مقبول ترین صنف رہی ہے۔ تقریبا سبھی شعرا نے اس صنف میں زورآزمائی کی ہے۔ ہندی زبان کے کسی شاعر کا غزل لکھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسے اردوزبان پر کس طرح سے عبور حاصل ہے۔ ہندی، اردو اور انگریزی زبان و ادب پر گرفت رکھنے والے رحمن مصور مترجم کے طور پر بھی سرگرم ہیں۔ انہوں نے ایک اہم کتاب ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ تاریخ فیروزشاہی، ضیاء الدین برنی کی ایک مشہور تاریخی تصنیف ہے جو محمد بن تغلق اور فیروز شاہ کے دور کے سیاسی مفکر اور مورخ ہیں۔ اس زمرے میں ڈپٹی نذیر احمد کی تحریر کردہ ’مرأۃ العروس‘ کا ترجمہ ’مسلم نوجاگرن کا دستاویز‘ کے نام سے کیا ہے اور’رومانسنگ ٹیگور‘ کی 114 نظموں کا ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں ترجمہ کیا ہے۔ ابن صفی کے تین ناولوں’فائر آن دی راکس، خوفناک عمارت، بہروپیہ نواب‘ وغیرہ کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ اس طرح پروفیسر مصور ہندی- اردو زبان کے مشترک ادیب کے طور پر ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:
ہندی مہک رہی ہے لوبان جیسی میری
لہجے کو میں نے اپنے اردو کیا ہوا ہے
پروفیسر رحمن مصور موجودہ دور میں اردو ہندی زبان کے سنگم کے طور پر نظر آتے ہیں، خواہ تدریس کا میدان ہو یا شعر گوئی کا ۔اردو ادب میں مشاعرہ اور ہندی ادب میں کوی سمیلن ہمیشہ مقبول رہے ہیں۔ مشاعرہ اردو شاعری کی ایک روایتی شکل ہے جو ہندوستانی معاشرے میں بے حد مقبول ہے۔ مشاعروں میں رحمن مصور کا شمار صف اول کے مقبول شاعروں میں ہوتا ہے۔اس وقت وہ منور رانا،راحت اندوری، بشیر بدر، وسیم بریلوی، منیر نیازی وغیرہ کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ دہلی، ممبئی، بنارس اور کلکتہ جیسے بڑے شہروں کے مشاعرے میں نظر آتے ہیں۔ وہ دبئی، سعودی عرب اور نیپال کے مشاعروں میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔
تدریس کے شعبے میں پروفیسر مصور ہندی ادب، ہندی ڈرامہ، ہندی ناول،ہندی کہانی کے ساتھ ساتھ اردو ادب پر بھی گہری دسترس رکھتے ہیں۔ اکثر وبیشتردیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص کسی ایک زبان یا مضمون کا ماہر ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کثیر لسانی ہیں یا ایک سے زیادہ مضامین میں علم رکھتے ہیں۔ رحمن مصور ہندی ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور تعلیمی اور ادبی سطح پر اس میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ ہندوستانی تعلیمی نظام میں زبان کے حوالے سے یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اردو زبان کا طالب علم اردو ادب کے ساتھ انگریزی ادب پڑھ سکتا ہے، لیکن ہندی ادب نہیں۔ اسی طرح ہندی ادب کا طالب علم ہندی ادب کے ساتھ انگریزی ادب بھی پڑھتا ہے لیکن وہ بھی اردو ادب نہیں پڑھتا کیونکہ وہ اس زبان سے پوری طرح ناواقف ہے۔ زبانیں ذاتیات کی بنیاد پر تقسیم نظر آتی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پروفیسر رحمن مصور ہمارے استاد ہیں۔ انھوں نے ہمیں ہندی ادب کے ساتھ ساتھ میر، غالب، فیض ، نظیر اور پروین شاکر جیسے شعرا سے بھی واقفیت کرائی ۔ اگر کسی طالب علم کودو یا دو سے زائد زبانوں کے ادب کو پڑھنے کا موقع مل جائے تو علم کے ساتھ ساتھ اس کے احساسات اور تجربات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
شاعری کے موضوعات پر گفتگو کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے ۔ پروفیسررحمن مصور کے ساتھ میرے تجربے اور شاعری کے بارے میں جو تھوڑی بہت سمجھ ہے اس کی بنیاد پر میں یہاں ان کی شاعری کے حوالے سے کچھ بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر رحمن مصور کی شاعری کی بات کی جائے تو ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے اس بات کا احساس ہوگا کہ وہ اردو کی کلاسیکی روایت سے پوری طرح واقف ہیں۔
وہ کہیں دور ہنس رہی ہوگی
پھولوں میں تازگی سی لگتی ہے
اوس کی بوند سبز پتے پر
ایک ننھی پری سی لگتی ہے
اول تو یہ کہ یہ شعر چھوٹی بحر میں کہا گیا ہے جو بذات خود بہت مشکل ہے۔ یہ دریا کو کوزے میں سمونے جیسا ہے۔ شاعر نے اس میں ہنسنے کو پھولوں کی تازگی سے تشبیہ دیا ہے اور اوس کی بوند کو ننھی پری کے مماثل قرار دیا ہے ۔ تشبیہ کا یہ انداز نہایت ہی منفرد اور معنی آفرینی عمدہ مثال ہے۔ اس شعر میں حسن تعلیل کی صنعت کا استعمال ہواہے۔ اب میر کا شعر دیکھیں:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر کے اس شعرمیںجس طرح حسن تعلیل کا استعمال ہوا ہے اس نے اس شعر کے مضمون کو بلندتر کردیا ہے۔ رحمن مصور نے روایتی کلاسیکی شاعری کو جس قدر سمجھا ہے ان کی شاعری میں اس کا عکس نظر آتا ہے۔ پروفیسر مصورکی شاعری اور کہانیوں میں حساس مضامین کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔جن میں ’ہندی غزل شلپ اور سنویدنا، ہندی لگھو کتھا کا شلپ اور کتھیہ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی موضوعات بھی شامل ہیں، جس میں ترقی پسندی، خواتین کا شعور، ذات پات کی تفریق اور فرقہ وارانہ مسائل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کا ایک شعر دیکھیں :
اسے ہم پر تو دیتے ہیں مگر اڑنے نہیں دیتے
ہماری بیٹی بلبل ہے مگر پنجرے میں رہتی ہے
شعر ہمارے معاشرے پر ایک گہرا طنز ہے۔ بیٹے اور بیٹیوں کی بات کی جائے تو معاشرے کا دوہرا معیار جگ ظاہر ہے۔ بیٹیوں کو آپ بہت سی حد بندیوں میں قید کردینا چاہتے ہیں جبکہ بیٹوں کو معاشرے میں بہت ساری آزادیاں میسر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرہ مکمل طور پر ایسا ہے لیکن اکثر وبیشتر اسی طرح کے رویے ہمیں دیکھنے میں آتے ہیں۔ رحمن مصور نے اس شعر میں بیٹی کو بلبل سے تشبیہ دی ہے ، بلبل کی آواز ویسے بھی خوش گلو ہوتی ہے ۔ مگر یہ خوش کرنے والی آواز اگر پنجرے میں قید ہے تو اس کا کیا مطلب۔ آزادی کا تصور پنجرے کی حدبندیوں سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ پردینا لیکن اڑنے نہ دینا اس جملے میں کرب کا اظہار ہوا ہے۔ اس شعر میں حسیت اپنے اعلیٰ ترین مقام پر ہے۔نسوانی کیفیات کو جس طرح رحمن مصور نے بیان کیا ہے وہ ہمیں اندر سے جھنجھوڑ دیتا ہے۔
میں ہندی کا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ ذوق شعبہ ہندی میں رحمن مصور کے لیکچر نے اور بھی دوبالا کردیا ۔ اردو اور ہندی کا رشتہ اس قدر گہرا ہے کہ وہ ایک دونوں سے ایک دوسرے راہ فرار کبھی اختیار نہیں کرسکتے ۔ یہ مختصر سا مضمون میرے مطالعہ اور میرے فہم وادراک کی چھوٹی سی کوشش ہے جو اردو زبان وادب کے تئیں دلچسپی کا حاصل بھی ہے۔