عبدالرحمٰن الراشد
تقریباً 300 سال پہلے کے اس دن (23فروری) کے بعد سے ، سعودی عرب کی طویل ،عظیم تاریخ خوش حالی کے لمحات سے لبریزہے بلکہ ریاست کے انہدام کے لمحات سے بھی بھری پڑی ہے۔چونکہ میں تاریخ پڑھنے کا شوقین ہوں،اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہماراکل ہمارے آج کو سمجھنے اور ہمارے کل کی پیشین گوئی کرنے میں ہماری مدد کرسکتاہے۔یومِ تاسیس منانے سے لامحالہ کئی بحثیں جنم لیتی ہیں: کیا تین صدیاں پہلے سعودی ریاست کی ضرورت تھی؟ کیا یہ سچ ہے کہ اس کی بنیاد شرک سے لڑنے کے مقصد سے رکھی گئی تھی؟ کیا یہ فی الواقع کبھی بڑی طاقتوں کے زیرتسلط نوآبادیاتی نہیں رہا ہے؟اس نے بین الاقوامی تنازعات سے کیسے نمٹا؟ 1727ء میں جزیرہ نما عرب کے شہرالدرعیہ میں ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔جزیرہ نما عرب اس وقت درجنوں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا گھرتھا۔اس علاقے میں خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد سے کوئی مرکزی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔اس کے بعد محمد بن سعود آئے۔انھوں نے آزاد قصبوں اورشہروں میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو کامیابی سے ختم کیا اورایک نئی ،بڑی ریاست تشکیل دی۔
الشیخ محمدبن عبدالوہاب نے نزدیک واقع قصبے العیینہ سے فرارہوکرمحمد بن سعود سے حفاظت طلب کی تھی، یہ جانتے ہوئے کہ صرف وہی انھیں نقصان سے بچا سکتے تھے۔تاریخی طورپرالشیخ محمد بن عبدالوہاب نے ایک مذہبی اصلاح پسند اورامام محمد بن سعود کے آدمیوں میں سے ایک کی حیثیت سےایک مؤثرکردارادا کیا تھا۔ تاہم ان کی سوانح حیات اور کردار میں بعد کے ادوارمیں ہیرا پھیری کی گئی تھی۔نجداورجزیرہ نما عرب کو نیم مشرکین کی سرزمین کے طورپرپیش کیا گیا تھا جس کے وہ نجات دہندہ تھے۔ان کی سوانح حیات کواس قدرمبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی سوانح حیات اور سیرت سے مماثلت رکھتی ہے:آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی وحدانیت کی دعوت اوراِن کی توحید کی دعوت، ان کی بے دخلی اور العیینہ سے الدرعیہ کی طرف ہجرت، ان کی اسلام کی دعوت اور اس کے نام پر لڑی جانے والی جنگیں۔لیکن حقیقت کے قریب ترین بات یہ ہے کہ الشیخ محمد بن عبدالوہاب ایک عالم تھے اورنجد اورجزیرہ نما کے لوگ مشرک نہیں تھے۔
ان کی کہانی کی تعریف کا مقصد خودالشیخ محمدکوتقدس مآب بنانا نہیں تھا،بلکہ ان کے بعد آنے والے علماء کو مقدس بنانا تھا۔بعض گروہوں نے ان کی کہانی کو بڑھا چڑھاکرپیش کیا تاکہ خودان کے اپنے اقتدار میں آنے یا حصہ لینے کو جوازفراہم کیا جاسکے۔ محمد بن سعود اور ان کے جانشین عبدالعزیزبن سعود کی وفات تک ریاست نے جزیرہ نما عرب کے مختلف حصوں تک اپنا اختیارنہیں بڑھایا تھا۔اپنی چاردہائیوں کی حکمرانی کے دوران میں ،عبدالعزیز نے الشیخ ابن وہاب کو کوئی کردار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی مدد کا استعمال کیا تھا۔ اسی دورمیں یہ ریاست خوش حال ہوئی، پھریہ تیسرے بادشاہ سعود بن عبدالعزیز کے تحت شمال میں عراق اور شام تک پھیل گئی اور بنوعباس کی حکمرانی کے بعد سب سے بڑی عرب ریاست بن گئی۔گذشتہ چنددہائیوں کے دوران میں انتہاپسندتحریک کے عروج کے ساتھ ہی الشیخ کو تقدس مآب بنانے اور ان کے کردار کوبڑھاچڑھا کرپیش کرنے والا بیانیہ غالب آ گیا تھا۔انتہا پسندوں نے کسی بھی مختلف بیانیے کی تجویزپرپابندی عاید کردی۔ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں،جس کاعنوان ہے’’وہابیوں سے پہلے نجد کی تاریخ‘‘،ڈاکٹرعويضہ بن متيريك الجہنی نے اس دورکا ذکرکیا ہے جب نجد کا ایک مشرک ملک ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ چونکہ کسی بھی اختلافِ رائے کو ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،لہٰذا الجہنی نے درخواست کی کہ واشنگٹن یونیورسٹی ان کے مقالے کی اشاعت کو مزید پانچ سال کے لیے روک دے۔ بعد میں انھوں نے اپنے مقالے کا ترجمہ بیروت میں ایک کتاب کی صورت میں اپنے نام سے شائع کیا تھا۔ان کے اس مقالے کوآج بھی اس دورکاایک اہم حوالہ سمجھا جاتا ہے۔اس کے مطالعہ سے ہمیں پتاچلتا ہے کہ منقسم جزیرہ نما عرب میں درجنوں ننھی منھی ریاستوں کو متحد کرنے کے لیے ایک مرکزی ریاست کے قیام کا مقصد اسلام کو پھیلانانہیں تھا،بالخصوص ان علاقوں میں جہاں پہلے ہی ہرکوئی مسلمان تھا۔ اس کے بجائے، مقصد طاقت اوروسائل پر تنازعات میں گھری چھوٹی ریاستوں میں جارحیت، لوٹ ماراور قحط کو روکنا اور اس کے بجائے ایک مرکزی ریاست کی تعمیروتشکیل کرنا تھا،جیسا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان تین صدیوں کا کیا ہوگا جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کے برعکس یہ عرب ریاست نوآبادیات سے نہیں بچ سکی؟ہوسکتا ہے کہ یورپی افواج کی طرف سے شام اوربحیرۂ روم کے آس پاس کے علاقوں کی طرح کوئی نوآبادیات نہ ہو،لیکن عثمانیوں نے کئی برسوں تک اس سرزمین پرحملہ کیا تھا۔انھوں نے کئی دہائیوں تک اس کے بڑے حصے پر قبضہ کیے رکھا تھا۔ وہ یا تو براہ راست خود لڑرہے تھے یا الاحسا، حجاز، شمال اورجنوب میں دیگر فریقوں کوہتھیارمہیا کر رہے تھے۔انگریز بھی موجود تھے،وہ علامتی طور پر، شریف مکہ کی افواج کی رہنمائی کررہے تھے۔ان سب کو (حجاز اورنجد کے) اتحاد کے 30 سال کی لڑائیوں کے دوران میں نکال باہرکیا گیا تھا۔یہ عام خیال کے برعکس،صرف داخلی لڑائیاں نہیں تھیں۔بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اورتوازن ایک نازک عمل تھا،خاص طورپردوسری جنگ عظیم سے پہلے کے دور میں۔برطانوی اور جرمن اورکسی حد تک سوویت روس سعودی عرب کو اپنے اپنے اتحادمیں شامل کرنے کے لیے مقابلہ کررہے تھے۔اس طرح تیسری سعودی ریاست کے بانی شاہ عبدالعزیز نے بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن برطانوی سلطنت اب بھی خطے میں سب سے زیادہ غالب تھی۔شاہ عبدالعزیز نے امریکا کوتیل کی رعایتیں دیں، جس کی خطے میں کوئی فوجی موجودگی نہیں تھی۔ان کے زیرقیادت سعودی عرب نے ہٹلر کے جرمنی سے ہتھیارخریدنے کی کوشش کی اور وہ اسے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ اٹلی سے بھی مہیّا کیے گئے تھے اور ماسکو کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے،جو جوزف اسٹالن کے تحت اپنے داخلی معاملات میں زیادہ مصروف اورالجھاہواتھا اور برطانیہ کو ناراض بھی نہیں کرناچاہتا تھا۔(بشکریہ: العربیہ اردو)