نئی دہلی، سماج نیوز: سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے 1000 اور 500 سو روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔عدالت عظمیٰ نے آج پیر کو اپنے اہم فیصلے میں نوٹ بندی کے فیصلے کی درستگی کو چیلنج کرنے والی والی 58 عرضیوں کو نہ صرف اکثریتی فیصلے سے خارج کر دیابلکہ یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے 2016 میں 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ ایگزیکٹو کی اقتصادی پالیسی کا حصہ تھا، اسے اب تبدیل نہیں کیا جا سکتا وہیں عدالت نے یہ بھی کہاکہ حکومت معاشیات سے جڑے فیصلے لے سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ مرکزی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا کی باہمی رضامندی سے لیا گیا تھا ،یہ مرکز کا یکطرفہ قدم نہیں تھا۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا’ڈیمونیٹائزیشن جیسے بڑے مسئلے پر فیصلہ کرنے کا RBI کو کوئی آزادانہ اختیار نہیں ہے۔’ یعنی اسے ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ سینٹرل بینک حکومت کو اپنا مشورہ دے سکتا ہے لیکن اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے کا حق صرف مرکز کو ہے‘۔ وہیںچار ججوں کے فیصلے سے اختلاف رکھتے ہوئے ۔ جسٹس ناگارتنا نے کہا کہ آر بی آئی ایکٹ کے سیکشن 26(2) کے تحت نوٹ بندی کی تجویز آر بی آئی کے نیشنل بورڈ سے آنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے تمام سیریز کے نوٹوں کو بند کرنے کا معاملہ آر بی آئی کے ذریعہ کچھ سیریز کے نوٹ بندی سے زیادہ سنگین معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر سوال پر میرے خیالات مختلف ہیں۔ جب نوٹ بندی کی تجویز مرکزی حکومت سے آتی ہے تو یہ آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26(2) کے تحت نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک قانون کی شکل میں ہے اور اگر پرائیویسی کی ضرورت ہوتی تو اسے آرڈیننس کے ذریعے لاگو کیا جاتا۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر اب سیاست گرم ہے۔ بی جے پی کانگریس دونوں آمنے سامنے ہیں ،کانگریس بی جے پی پرکنفیوززن پھیلانے کا الزام عائد کررہی ہے تو وہیں بی جے پی کہہ رہی ہے کہ کانگریس ملک میں نوٹ بندی کے خلاف جو پروپیگنڈہ کررہے تھے اس کے لئے راہل گاندھی معافی مانگیں۔ کانگریس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نوٹ بندی اور اس کے نتائج اور اثرات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے بلکہ اس نے نوٹ بندی کے فیصلے کے عمل پر سوال اٹھایا ہے۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے پیر کو پارٹی ہیڈکوارٹرمیں کہا کہ بی جے پی یہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے فیصلے کو منظوری دے دی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔کھیڑا کا کہنا ہے کہ عدالت نے فیصلے کے عمل کو درست ٹھہرایا ہے ،نا کہ فیصلے کو۔ترجمان نے کہا کہ اسی فیصلے سے جڑے ایک جج نے ، جسے بی جے پی نوٹ بندی کے حق میں کہہ رہی ہے ، نے اس فیصلے کے عمل پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری سے لیا جانا چاہیے تھا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ عدالت نے فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں۔کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ ان کی پارٹی نے بھی نوٹ بندی کو غلط سمجھا اور اب بھی اسے غلط مانتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی سے نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ ہی کالے دھن کو روکا جاسکا۔
کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں نوٹ بندی کے اثر پر کچھ بھی نہیں کہا۔جئے رام رمیش نے الزام عائدکرتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے ملک کی ترقی کو نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایم ایس ایم ای سیکٹر بے حال ہو گیا اور غیر منظم سیکٹر ختم ہو گیا جس سے لاکھوں لاکھ لوگ برباد ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی اپنے مقصد میں کامیاب رہی یا نہیں۔‘‘ دوسری جانب بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے آنا فانا پریس کانفرنس بلائی اور کانگریس پر سارانزلہ اتار دیا۔ انہوںنے کہا کہ فیصلہ ملک کے مفاد میں تھا اور عدالت نے اسے درست پایا ہے ۔ادھر بی جے پی فیصلہ آنے کے بعد اپنے دعوے پر قائم ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اس فیصلے سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ گئی، بلیک مارکیٹنگ اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہوا اور ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔اس سلسلے میں حکومت پر جھوٹے الزامات لگانے کی پاداش میں کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کو ملک سے معافی مانگنی چاہیے ۔بی جے پی کے لیڈرپرساد نے کہا کہ نوٹ بندی کے بعد ہندوستان نے ڈیجیٹل ادائیگیوں اور مالیاتی ٹکنالوجی کے معاملے میں بھی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے ۔ اکتوبر 2022میں 12 لاکھ کروڑ روپے کے 730کروڑ ڈیجیٹل لین دین ریکارڈ کیے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ 18-2017میں انکم ٹیکس میں 20فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور 2.38لاکھ جعلی کمپنیاں پکڑی گئیں۔ غیر رسمی معیشت کا حصہ 52فیصد سے گھٹ کر 20فیصد رہ گیا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جموں و کشمیر میں پتھراؤ بند ہو گیا۔ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے ۔ نوٹ بندی دراصل دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔
غور طلب ہے کہ جسٹس ایس عبدالنظیرکی سربراہی والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے 4:1کی اکثریت سے فیصلہ یہ سنایا ہے۔حالانکہ جسٹس ناگرتن نے اکثریت سے الگ ایک اختلافی فیصلہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کی تجویزایک قانون سازی کے ذریعے کی جانی چاہیے ،نہ کہ گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے ۔اس سے قبل جسٹس نظیر، جسٹس گوئی، جسٹس اے ۔ ایس بوپنا، جسٹس وی راما سبرامنیم اور جسٹس بی۔ وی ناگرتھنا کی آئینی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد 7 دسمبر 2022کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔مرکزی حکومت کی جانب سے 8نومبر 2016کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے کو ایڈوکیٹ وویک نارائن شرما کے علاوہ 50 سے زیادہ عرضیوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا۔