نئی دہلی، سماج نیوز: بہار میں جعلی شراب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 70 ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 6سال قبل نافذ شراب پر پابندی کے بعد سے بہار میں جعلی شراب سے مرنے والوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے اس جعلی شراب کے سانحہ کے بارے میں بہار حکومت اور ریاست کے پولس ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔بہار میں اپریل 2016 سے شراب کی فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی ہے۔ لیکن حکومت پر الزام ہے کہ اس پر عمل درآمد ٹھیک سے نہیں ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے ایک میڈیا رپورٹ کا ازخود نوٹس لیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بہار کے سارن ضلع میں مبینہ طور پر جعلی شراب پینے سے متعدد افراد کی موت ہوئی ہے۔ کمیشن نے کہا کہ اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں تو اس سے انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔کمیشن کے بیان کے مطابق اس نے بہار کے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کو نوٹس جاری کرکے تفصیلی تفصیلات طلب کی ہیں۔ اس کے تحت پولس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر، اسپتال میں داخل متاثرین کے علاج اور متاثرہ خاندان کو دیئے گئے معاوضے (اگر کوئی ہے) کے بارے میں معلومات مانگی گئی ہیں۔کمیشن نے یہ بھی جاننا چاہا کہ سانحہ کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔ کمیشن نے اس سلسلے میں حکومت سے جلد از جلد جواب طلب کیا ہے۔ یہ جواب حکم جاری ہونے کی تاریخ سے چار ہفتوں کے اندر دینا ہوگا۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات چھپرا کے مرودا پولس اسٹیشن کے تحت مشرک، ایشوا پور اور امانور گاؤں میں ہوئیں۔ بتایا گیا ہے کہ پولس کو شبہ ہے کہ گاؤں والوں نے آس پاس کے علاقوں میں ایک عام دکان سے شراب خریدی ہوگی۔ متوفی کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ 50 سے زائد افراد نے دیسی شراب پی رکھی تھی۔ وہیں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ زہریلی شراب سے مرنے والوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جائیگا، جبکہ اپوزیشن پارٹی بی جے پی وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہی ہے اور شراب بحالی کیلئے زور دے رہی ہے۔