تہران: ایران کی پارلیمان اور عدلیہ اُس قانون پر نظرثانی کر رہی ہیں، جس کے تحت خواتین کے لیے سر ڈھانپنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ایران کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ ملکی عدلیہ اور پارلیمان ‘حجاب قانون‘ کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں۔ کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی مہسا امینی کو اسی قانون کے تحت اخلاقی پولس نے گرفتار کیا تھا اور پولس حراست میں اس کی مبینہ ہلاکت کے بعد سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہیں مظاہروں میں مہلوکین کی تعداد اب تک 470سے تجاوز کرگئی ہے۔اس دوران نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں موجود ایرانی خواتین نے اسکارف جلاتے اور اپنے بال کاٹتے ہوئے اس قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ دریں اثناء ایران کے مختلف علاقوں میں خواتین نے احتجاجا بالوں کا ڈھانپنا بند کر دیا ہے، خاص طور پر دارالحکومت تہران کے جنوبی علاقوں میں، جنہیں فیشن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔انقلاب ایران کے چار برس بعد اپریل 1983ء میں تہران حکومت کی جانب سے ہیڈ اسکارف لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔محمد جعفر منتظری کا قُم شہر میں کہنا تھا ’’پارلیمان اور عدلیہ دونوں ہی مل کر اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں کہ آیا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘‘۔ تاہم اسنا نیوز ایجنسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس قانون میں کیا تبدیلی کی جا رہی ہے۔اٹارنی جنرل کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا’’جائزہ ٹیم نے بدھ کو پارلیمنٹ کے ثقافتی کمیشن سے ملاقات کی ہے اورایک یا دو ہفتوں میں اس کے نتائج سامنے آ جائیں گے‘‘۔دوسری جانب صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ ایران کی جمہوریت اور اسلامی بنیادیں آئینی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا’’لیکن آئین کو نافذ کرنے کے ایسے طریقے ہیں، جو لچکدار ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کا یہ تبصرہ ایران کے سرکاری ٹیلی وژن پر بھی نشر کیا گیا ہے۔ایران میں جب سے لازمی حجاب کا قانون لاگو کیا گیا ہے، اس کے بعد سے وہاں خواتین کے لباس میں تبدیلی آئی ہے۔ زیادہ تر نوجوان خواتین تنگ جینز اور رنگ برنگے اسکارف پہنتی ہیں۔(ڈی ڈبلیو)
previous post