Samaj News

امریکی ملازمتوں میں کٹوتیاں،ہزاروں ایشیائی ملازمین بے روزگار

واشنگٹن: گزشتہ تین سالوں کے دوران مختلف معاشروں کے چند اہم ترین شعبوں میں بہت زیادہ بھوچال آیا۔ یہ شروعات کورونا کی مہلک عالمی وبا سے ہوئی اور اُس کے بعد روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا بھر میں اقتصادی بحران ، کسادبازاری اور توانائی کے بحران کو جنم دیا ۔سب سے زیادہ منفی اثرات دنیا بھر میں روزگار کی منڈی پر مرتب ہوئے۔ امریکہ جیسا ملک جس میں ہر طرح کی صنعت اور شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے کبھی روزگار کے بہت مواقع ہوا کرتے تھے، وہاں کسادبازاری اور توانائی کے بحران کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں نے ملازمتوں کٹوتی شروع کر دی۔ امریکہ میں ہر شعبے اور کمپنی میں کام کرنے والوں کا ایک اچھا خاصہ بڑا تناسب ایشیائی ورکرز پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ امریکہ میں ٹیکنیکل کمپنیوں نے ملازمتوں میں کٹوتیاں شروع کیں تو اس فیلڈ میں کام کرنے والے ہزاروں غیرملکیوں کے روزگار کے دروازے بند ہونا شروع ہوئے۔

امریکہ میں ٹیکنیکل کمپنیوں کی طرف سے جاب کٹوتی کے سلسلے سے سب سے زیادہ متاثر ایشیائی ورکرز ہوئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے ملازمین کو امریکی کمپنیوں نے ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔

ایشیائی آئی ٹی ماہرین کا مستقبل:امریکہ کی ‘ٹیک کمپنیوں‘ کی طرف سے ہزاروں کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کی وجہ سے بیرون ملک خاص طور سے ایشیائی ممالک سے امریکہ جا کر کام کرنے والوں کی ملازمتیں غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ ایشیائی آئی ٹی ماہرین زیادہ تر ورک ویزا پر امریکہ میں ہیں اور اب ان کی ملازمتوں کے ختم ہونے سے ان کے سروں پر بے روزگاری کا پہاڑ گرا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران فیس بک کی مالک کمپنی میٹا، ایمیزون اور ٹرانسپورٹ کی بہت بڑی کمپنی لفٹ نے ملازمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے کیونکہ امریکی ٹیک انڈسٹری غیر یقینی معاشی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔بڑھتی ہوئی شرح سود اور صنعت میں گنجائش سے زیادہ افرادی قوت کی وجہ سے صرف نومبر میں 46ہزار ملازمتوں میں کٹوتی کی گئی۔ یہ اعداد و شمار بے روزگار افراد سے متعلق ایک ویب سائٹ layoffs.fyi نے منظر عام پر لائے ہیں۔ اس پلیٹ فارم نے برطرف کیے گئے ملازمین کی فہرست بھی تیار کی تاکہ انہیں آئندہ کے لیے ملازمت پر رکھنے والی کمپنیوں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اس پلیٹ فارم سے عام ہونے والی خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ میں غیر ملکی کارکنوں کو خاص طور پر برطرفی کی تازہ لہر سے سخت نقصان پہنچا ہے۔
غیر ملکی ہُنر مند اور امریکی ویزے کا جال: سوجاتا کرشناسوامی جیسے کارکنوں کے لیے، جو نام نہاد H-1B ویزا پر امریکہ آئے تھے، ملازمتوں سے محروم ہونا ان کی رہائشی حیثیت کو خطرہ میں ڈالنے کا باعث ہے۔ سن دوہزار اکیس کے مالی سال میں منظور شدہ H-1B وصول کنندگان کو ملنے والے روزگار میں سے تقریباً 70 فیصد تکنیکی ملازمتیں تھیں۔ یہ ویزا امریکی آجروں کو مخصوص ملازمتوں کے لیے غیر ملکیوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے جن کے لیے بیچلرز ڈگری یا اس کے مساوی کوئی ڈگری ہونالازمی ہے۔ H-1B ویزا رکھنے والے غیر ملکی امریکہ میں اپنی ملازمت کے لیے کمپنیاں تبدیل کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس صرف 60 دن ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ان دو مہینوں میں کوئی نئی نوکری نہیں ملی تو انہیں ملک چھوڑنا پڑتا ہے۔
نیو یارک میں مقیم لیبر قوانین کے ایک وکیل ماہر ناصر کے مطابق ’’یہ تکنیکی برطرفی ایسی چیز ہے جس کا میں نے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا‘‘۔ وہ 2010ء سے اس شعبے میں کام کر رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے برطرف کیے گئے آئی ٹی ماہرین کی اتنی بڑی تعداد پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اس چیز نے انہیں بہت حیران کیا ہے۔یہ آئی ٹی ماہرین پہلے میٹا، ٹویٹر اور ایمیزون کے لیے کام کرتے تھے اور اب وکیل ماہر ناصر سے مشورہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس وکیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا’’ان میں بہت سے لوگ بھارت اور ایشیا کے دیگر ممالک سے ہیں‘‘۔امریکہ کی ٹیکنیکل انڈسٹری میں ایشیائی کارکنوں کی تعداد ہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں مقامی آبادی میں ماہروں کی کمی ہے۔ ویزا کی ضروریات اور ضوابط کے تحت امریکی آجرین کسی غیر ملک سے آسامی پُر کر سکتے ہیں بشرطیکہ اس کام کے لیے کوئی امریکی کارکن دستیاب نہ ہو۔امریکہ کی شہریت اور امیگریشن سروس کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 ء کے بعد سے ایمیزون، میٹا، لیفٹ سیلزفورس، اسٹرائپ اور ٹویٹر جیسی بڑی امریکی ٹیک فرموں نے مجموعی طور پر 45 ہزار غیر ملکی شہریوں کے لیے ویزا درخواستیں دائر کی تھیں۔(ڈی ڈبلیو)

Related posts

سونیا گاندھی: نامساعد حالات کے درمیان ملک اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانے والی شخصیت

www.samajnews.in

یوپی: اسپتال کا غضب کارنامہ

www.samajnews.in

راہل گاندھی کے کسی سوال کا جواب نہیں دیئے وزیر اعظم مودی

www.samajnews.in