ہیٹ اسپیچ کیخلاف سپریم کورٹ سخت ناراض، تین ریاستوں کی پولس کو نوٹس جاری
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ’’ایک جمہوری ملک کے لیے موجودہ ماحول حیرت انگیز ہے، ہم نے ایسی حالت پہلے کبھی نہیں دیکھی، ہم مذہب کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں، ایسے اشتعال انگیز بیانات برداشت نہیں کیے جا سکتے‘‘
نئی دہلی،سماج نیوز: سپریم کورٹ نے جمعہ کو دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ پولس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نفرت انگیز تقریر ایک بہت سنگین مسئلہ ہے اور انہیں اس معاملے میں شکایت موصول ہونے کیلئے رسمی کارروائی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ’ازخود نوٹس‘ پر فوجداری مقدمہ درج کر کے ملزمان کیخلاف بلا امتیاز فوری کارروائی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ دینے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نفرت کا ماحول ملک پر حاوی ہوگیا ہے ، مذہب کی پروا کئے بغیر فوری کارروائی کی جانی چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہیٹ اسپیچ میں دئے جارہے بیانات پریشان کرنے والے ہیں ، ایسے بیانات کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس کے ایم جوزیف کی بینچ نے کہا کہ اکیسویں صدی میں یہ کیا ہورہا ہے؟ مذہب کے نام پر ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہم نے ایشور کو کتنا چھوٹا بنا دیا ہے۔ ہندوستان کا آئین سائنسی سوچ ڈیولپ کرنے کی بات کرتا ہے ۔ دراصل سپریم کورٹ ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے اور خوفزدہ کرنے کے بڑھتے خطرے کو روکنے کیلئے فوری مداخلت کی مانگ کرنے والی عرضی پر سماعت کررہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے جمعرات کو مرکزی حکومت سے اس سلسلہ میں جواب بھی طلب کیا ۔جسٹس کے ایم جوزف اورجسٹس رشیکیش رائے کی بنچ نے شاہین عبداللہ کی عرضی پر نوٹس جاری کرتے ہوئے پولس اور متعلقہ انتظامیہ کو وارننگ بھی دی کہ اس معاملے میں کسی بھی طرح کی تاخیر توہین عدالت کے مترادف ہوسکتی ہے۔ بنچ نے کہا کہ سماج میں نفرت انگیز تقاریر اور بیانات دینے والے چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں، متعلقہ ملزمین کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بنچ نے کہا کہ ملک کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے کیلئے فوری طور پر اس طرح کی کارروائی کی ضرورت ہے ۔عدالت عظمیٰ نے ’مسلمانوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے اور دہشت گردکہنے ‘ کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ، حالیہ کئی میٹنگوں میں دیے گئے کچھ بیانات کو چونکا دینے والا قرار دیتے ہوئے کہا’بیانات بہت پریشان کن ہیں۔ مذہب کے نام پر ہم کہاں پہنچ گئے ؟ یہ افسوسناک ہے ۔ آرٹیکل 51اے آئین میں سائنسی مزاج کو فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے‘۔غور طلب ہے کہ اس بارے میں شاہین عبداللہ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں ہیٹ اسپیچ کے واقعات کی غیر جانبدارانہ ، قابل اعتماد اور آزادانہ جانچ کیلئے مرکزی حکومت کو ہدایت دے ۔ سینئر وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ میں شاہین کی جانب سے موقف پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس پریشانی سے نمٹنے کیلئے کچھ کیا جانا چاہئے ۔ ساتھ ہی جو بھی شخص ہیٹ اسپیچ کا قصوروار پایا جاتا ہے، اس کے خلاف سخت قدم اٹھایا جانا چاہئے ۔ اپنی عرضی میں عبداللہ مانگ کی ہے کہ ہیٹ اسپیچ اور ہیٹ کرائم کے قصورواروں کے خلاف یو اے پی اے سمیت سنگین دفعات لگائی جائیں، تاکہ ہیٹ اسپیچ اور ہیٹ کرائم پر لگام لگائی جاسکے ۔