راجو سریواستو 1963 میں کانپور میں شاعر رمیش سریواستو عرف بالائی کاکا کے ہاں پیدا ہوئے، بچپن سے ہی فلمی ستاروں کی نقل کرنے کا شوق رکھتے تھے۔شاید انھوں نے کامیڈی کی دنیا میں سب سے زیادہ نام امیتابھ بچن کی نقل کر کے حاصل کیا لیکن انھوں نے کامیڈی اس دور میں شروع کی جب یوٹیوب، ٹی وی، سی ڈی اور ڈی وی ڈی نہیں تھی۔ ان کا پہلا مزاحیہ خاکہ ’ہنسنا منع ہے‘ بھی آڈیو کیسٹ کی صورت میں سامنے آیا۔راجو شریواستو نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’یہ 1980 کی دہائی کی بات ہے، ان دنوں اتنے چینل نہیں تھے، صرف دور درشن تھا۔ میں اس وقت کا آدمی ہوں۔ اس وقت ڈی وی ڈی، سی ڈی۔ سب وہاں نہیں تھا، اس وقت ہماری آڈیو کیسٹیں نکلتی تھیں جو پھنس بھی جاتی تھیں، پھر اس میں پنسل ڈال کر ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ ہماری کیسٹ ٹی سیریز میں آئی تھی۔‘راجو شریواستو نے بتایا تھا کہ ’جس رکشے میں ہم بیٹھے ہوتے اس رکشے میں ہماری کیسٹ چل رہی ہوتی لیکن سننے والا ہمیں جانتا تک نہیں تھا۔ کبھی کبھی ہم اسے تنگ کرنے کے لیے کہتے کہ کیا سُن رہے ہو یار، رک جاؤ اور اچھی چیز سُن لو۔ اس پر رکشہ والا کہتا تھا کہ ارے نہیں بھائی، کوئی شریواستو ہے، بہت ہنساتا ہے۔‘راجو نے ایک کہانی شیئر کی، ’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم ٹرین میں اپنے ایک کردار منوہر کے انداز میں کسی کو شعلے کی کہانی سنا رہے تھے۔۔۔ ایک چچا اوپر کی برتھ پر سو رہے تھے، ہماری بات سُن کر وہ نیچے آئے اور کہا کہ یہ اس طرح ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو، اسے دوسرے طریقے سے کرو۔ جو ہے اس کی کیسٹ بنا لو۔ تھوڑی سی محنت سے بمبئی چلے جاؤ، گلشن کمار کا سٹوڈیو وہاں ہو گا۔ تم وہاں اپنی کیسٹ سناؤ تمہاری کیسٹ بھی آ جائے گی۔ شریواستو کی ایک کیسٹ سامنے آئی ہے، اس سے اندازہ لگائیں۔‘راجو شریواستو، جو 1982 میں ممبئی پہنچے، ابتدائی دور میں آرکسٹرا کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اور پہلی بار انھیں صرف 100 روپے معاوضہ ملا۔فلموں میں ان کا سفر سلمان خان کی پہلی فلم ’میں نے پیار کیا‘ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’بازی گر‘، بمبئی سے گوا، آمایا اتھانی اور خرچا روپیہ جیسی کئی فلموں میں بھی کام کیا۔راجو شریواستو کو ایک ایسے کامیڈین کے طور پر بھی جانے جاتے تھے جو بغیر تیاری کے اچانک لطیفے سنا دیتے ہیں۔ایک انٹرویو میں جب ان سے ان کے خاص شوخ کپڑوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میرے شو لکھنؤ، پٹنہ جیسے شہروں میں ہونے والے میلوں میں ہوتے ہیں جہاں بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے اس لیے شوخ پہنیں اور لوگ اسے دور سے دیکھ سکیں۔ اور کہیں بھی جا کر دیکھو کہ وہ جا رہا ہے، اور وہ کھڑا ہے۔تاہم، ایک وقت ایسا بھی آیا جب کپل شرما کے کامیڈی شو نے اس دور کے تمام مزاح نگاروں پر غلبہ حاصل کیا۔ لیکن راجو شریواستو ان سب کے درمیان اپنی خاص جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ نومبر 2017 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ’راجو شریواستو میرا گھریلو نام ہے، لیکن سکول کالج کا نام ستیہ پرکاش ہے۔ مجھ راجو پکارا جانا پسند ہے۔۔۔ راجو لڑکے یا بچے کا نام لگتا ہے اور میں ہمیشہ کے لیے بچہ بننا چاہتا ہوں۔‘جہاں تک بچپن کا تعلق ہے سکول میں نقل کرنے پر اساتذہ سے ڈانٹ پڑتی تھی۔ اندرا گاندھی کی نقل کرتے تھے۔ وہ سکول کے کھیلوں کے مقابلوں میں کمنٹری کیا کرتا تھا۔’شروع میں میں نے امیتابھ کی فلمیں دیکھیں، چاہے وہ شعلے ہو یا دیوار، میں نے ان کی نقل کرنا شروع کر دی، میں نے ان کی آواز نکالنی شروع کی۔ دوست مجھے جونیئر امیتابھ کہتے تھے۔ چھوٹے بڑے شہروں سے لوگ مجھے بلانے لگے، درگا پوجا ہو، دسہرہ ہو، لوگ مجھے مکالمے سنانے کے لیے وہاں بلاتے تھے۔‘راجو شریواستو کو یقین نہیں تھا کہ ’گریٹ انڈین لافٹر چیلنج‘ ایک بہت بڑا سٹیج تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک بار مجھے آفر ملی کہ نئے لڑکوں کا پروگرام شروع ہو رہا ہے۔ سنیل پال ہو، احسن قریشی ہو، نوین پربھاکر ہو… کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا۔ مجھے اس میں شامل کیا جا رہا تھا۔ لوگوں نے مجھے روکا کہ میں ایسے پروگرام میں نہ جاؤں جس میں جانی لیور نہ ہوں، جاوید جعفری نہ ہوں اور ارشد بھی نہ ہوں۔ میری کیسٹس ’ہنسی کا ہنگامہ‘، ’ہنستے رہو‘ مارکیٹ میں آ چکی تھیں۔ میں نے کئی فلموں میں بھی کام کیا تھا جیسے ’میں نے پیار کیا، میں پریم کی دیوانی ہوں، مسٹر آزاد، واہ تیرا کیا کہنا، عامہ آتھانی اور خرچا روپیہ‘ اس لیے میں ڈائریکٹر کو کئی بار انکار کر چکا تھا۔ لیکن میں نے امیتابھ بچن کو اپنا آئیڈیل مانتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ ‘جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔راجو شریواستو کا کہنا تھا ’میں نے اس شو سے کئی بار انکار کیا تھا۔ لیکن ذہن اس کی طرف چلا گیا اور وہاں سے سب کی تقدیر بدل گئی۔۔۔جس نے بھی حصہ لیا وہ سٹار بن گیا۔‘’جب میں لافٹر شو میں پہنچا تو تمام شرکا جو وہاں پہنچے تھے یہ سمجھ رہے تھے کہ میں وہاں کا جج ہوں۔ جس نے میری آڈیو کیسٹ سنی تھی اور وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔‘