مشرف شمسی
بات اسی کی دہائی کی ہے۔اس وقت میں والدین کے ساتھ دھنباد ،جھارکھنڈ میں رہا کرتا تھا۔آبا مرحوم ایک اُردو اخبار ضرور گھر پر منگواتے تھے۔اُنھیں اخبار بینی کا شوق تھا جو آخری وقت تک رہا۔دھنباد سے کوئی اُردو روزنامھ شائع نہیں ہوتا تھا اسلئے کلکتہ سے شائع ہونے والا اردو اخبار آزاد ہند میرے گھر آتا تھا ۔حالانکہ اخبار مشرق بھی دھنباد میں فروخت ہوتا تھا لیکن اسکی تعداد مختصر ہوا کرتی تھی ۔غرض کہ دھنباد میں آزاد ہند زیادہ تعداد میں پڑھے جاتے تھے۔صرف دھنباد میں ہی نہیں پورے چھوٹا ناگپور میں جو اب جھارکھنڈ بن چکا ہے وہاں آزاد ہند سب سے زیادہ فروخت ہونے والا اردو اخبار تھا۔اخبار کا ایڈیٹوریل یقیناً مجھے متاثر کرتا تھا ۔سیاست اور کھیل میرا پسندیدہ موضوع ہوا کرتا تھا اسلئے سیاست اور کھیل کے صفحات کو بڑے انہماک سے پڑھتا تھا ۔مجھے ٹھیک ٹھیک سے یاد نہیں ہے غالباً نوّے کا اوائل تھا ۔بہار میں اسمبلی کا چناؤ ہو رہا تھا ۔میرا جس گجواتنڈ میں گھر ہے اس کے بغل کے محلّہ منائی تاند کے رہنے والے کھنڈیوال نامی ایک بزنس مین نے دھنباد اسمبلی حلقہ سے چناؤ میں آزاد امیدوار کھڑے ہوا تھا ۔کھنڈیوال کا چھوٹا بھائی میرے ساتھ اسکول میں میٹرک تک پڑھا تھا ۔اس نے اپنے بھائی سے ملایا اور کہا کہ اُردو اخبار میں کچھ لکھانا ہوگا تو یہ لکھ دیگا۔تب تک میں نے اپنی پڑھائی پوری نہیں کی تھی اور مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیا کرتا تھا ۔ اسی چناؤ کے درمیان ایک دن ایک شخص میرے گھر آیا اور کہا رات دس بجے کے قریب khandelwal صاحب سے اُنکے رہائش پر مل لیں اُنھیں آپ سے کچھ کام ہے ۔دس بجے رات کے قریب میں اُنکے گھر پہنچا جہاں باہر کی جانب بڑی آفس تھی ۔وہاں لوگوں کا ہجوم جمع تھا ۔تھوڑی دیر رکنے کے بعد khandelwal صاحب کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ مجھے ساتھ لے کر ایک کمرے میں پہنچے تاکہ چناؤ کی تیاری پر کچھ بات ہو سکے ۔میں اس کمرے کی صوفے پر جیسے ہی بیٹھا khandelwal نے کہا کہ اُردو اخبار آزاد ہند میں میرا اشتہار شائع کرا سکتے ہیں ۔مجھے اس بابت کوئی جانکاری نہیں تھی لیکن میں کچھ دیر سوچنے کے بعد ہاں کہہ دیا ۔khandelwal صاحب نے کہا کہ پیسے کی فکر مت کرنا لیکن کام کسی بھی طرح ہونی چاہیے ۔مجھے یہ پتہ تھا کہ دھنباد میں آزاد ہند کا کوئی نامہ نگار نہیں ہے تو وہاں کس سے رابطہ کروں ۔میں نے پھر کہا کہ اس اشتہار کو شائع کرانے مجھے کلکتہ جانا پڑےگا۔دھنباد اور کلکتہ کی دوری ٹرین سے صرف ساڑھے تین سے چار گھنٹے کی ہے ۔khandelwal صاحب نے اشتہار کا کاغذ تھماتے ہوئے مجھے کہا کہ ٹھیک ہے کل چلے جائیں۔میں کلکتہ اسلئے بھی جانے کے لئے تیار ہو گیا کہ اس اخبار کا ایڈیٹوریل لکھنے والے شخصیت سے رو برو ہو سکوں ۔صبح چھ بجے کولڈ فیلڈ ایکسپریس دھنباد سے کلکتہ کے لیے کھلتی تھی ۔میرا کلکتہ کا دوسرا سفر تھا ۔رات بھر سو نہیں سکا اور آزاد ہند کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی سے ملاقات کا خیال آتا رہا ۔صبح وقت سے پہلے اسٹیشن پہنچ گیا ۔کولڈ فیلڈ ایکسپریس وقت پر یعنی ساڑھے دس بجے ہورہ پہنچ گئی۔میں راستے میں ناشتہ کر کے پونے بارہ بجے کے قریب آزاد ہند کے دفتر جو بڑا بازار سے کچھ آگے تھا وہاں پہنچ گیا۔ مجھے محلّہ یاد نہیں آ رہا ہے۔پوری بلڈنگ آزاد ہند کی تھی۔آزاد ہند کے دفتر میں اندر جاتے ہوئے میں نے کہا کہ میں دھنباد سے آیا ہوں مجھے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی صاحب سے ملنا ہے۔وہاں موجود ایک صاحب نے کہا کہ سعید صاحب تو تین بجے آئیں گے ۔لیکن آپکو کیا کام ہے بتائیں تو۔میں نے کہا اُن سے ہی کام ہے کہہ کر دفتر سے نکل گیا ۔تین گھنٹے کہاں گزاروں ایک انجان شہر میں وہ ایک بڑا مسئلہ میرے سامنے تھا۔خیر دھرم تللہ میں کچھ وقت گزارا اور پھر زکریا اسٹریٹ میں امینیہ ہوٹل میں کھانا کھانے آ گیا۔کھانا کھانے کے بعد گھڑی میں وقت دیکھا تو ڈھائی بج چکے تھے ۔پندرہ بیس منٹ پیدل چل کر میں تین بجے سے پہلے آزاد ہند کے دفتر میں پہنچ چکا تھا ۔اس وقت تک سعید صاحب دفتر نہیں پہنچے تھے لیکن تھوڑی دیر میں ہی احمد سعید ملیح آبادی صاحب دفتر آ گئے۔کچھ دیر بعد وہاں موجود ایک صاحب سے کہا کہ کیبن میں اطلاع کر دیں ۔جیسے ہی اس شخص نے اندر پیغام دیا مجھے اندر آنے کہا گیا ۔جیوں ہی سلام کرکے کیبن کے اندر داخل ہوا مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا میں کہاں سے شروع کروں ۔کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے کہا کہ سر میں دھنباد سے آیا ہوں۔میرا مقصد تو ایک اشتہار شائع کرانا ہے جو آپ سے ملے بنا ہی یہ کام ہو سکتا تھا لیکن اصل مقصد آپ سے ملنا ہے ۔وہ خاموشی سے میری بات سنتے رہے ۔پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ ابھی کیا کرتے ہیں ۔میں نے کہا کہ میرا ایم اے فائنل ہے اور مقابلہ جاتی امتحانات دے رہا ہوں ۔سعید صاحب نے اس وقت کہا تھا کہ اگر اُردو صحافت میں قسمت آزمائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ فیلڈ کافی جدّو جہد بھرا ہے۔دور سے سب کچھ اچھا نظر آ رہا ہے لیکن اس فیلڈ میں پیسے نہیں ہے۔میں نے پھر کہا کچھ لکھ کر بھیجوں گا تو شائع ہوگا۔اُنہونے کہا ضرور بھیجیں بلکہ جب دھنباد میں رہیں تو نیوز بھی بھیجیں ۔تقریباً دس مِنٹ وہ مجھ سے بات کرتے رہے ۔مجھے وہاں سے اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا ۔تب اُنہونے کہا کہ بات چیت میں جس کام کے لیے آپ آئے ہیں وہ نہیں رہ جائے۔اُنہونے بیل دبایا اور کہا کہ فلاں صاحب کے پاس لے جائیں اخبار میں اشتہار انہیں دینا ہے۔پھر میں نے محکمہ اشتہار میں اشتہار کے مضمون اور پیسے دیئے ۔پیسے دینے کی رسید لے کر میں ایک بار پھر سعید صاحب کی کیبن میں اُنھیں سلام کر کے دفتر سے نکل گیا۔سعید صاحب بھلے ہی کمیونسٹ اور کانگریس کی مدد سے راجیہ سبھا میں گئے تھے لیکن انکا رحجان کانگریس کی جانب تھا۔اکثر انکا اخبار کمیونسٹ سرکار کے خلاف لکھتا رہتا تھا ۔رات میں ٹرین پکڑ کر میں دھنباد ا گیا۔دوسرے دن اشتہار بھی شائع ہو گیا ۔سعید صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے کئی مضمون کھیل اور سیاست پر آزاد ہند کو بھیجے جو نمایاں کر کے شائع ہوتا رہا۔یہاں تک کہ کوئی نیوز بھی بھیج دیتا تھا تو میرے نام سے شائع ہو جاتا تھا ۔لیکن اس ملاقات کے بعد سعید صاحب سے پھر ملاقات نہیں ہوئی۔حتٰی کہ کل جب اُنکی موت کی خبر سوشل میڈیا پر دیکھا تو تب پتہ چلا کہ وہ اب تک حیات سے تھے۔احمد سعید ملیح آبادی صاحب نے زندگی میں جو مقام حاصل کیا شاید ہی کسی صحافی خاص کر اُردو صحافی کو حاصل ہوگا ۔اللہ اُنھیں آخرت میں بھی وہی مقام دے آمین۔