23.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

ہم بابری مسجد کی شہادت کو کیسے بھول جائیں

رام مندر کی تعمیر اور اس کی افتتاحی تقریب پر سرکاری طور سے جشن منایا جانا جمہوری نظام میں حیران کن

احمد رضا
سہارنپور، سماج نیوز: سوشل قائد صابر علی خان، ایڈوکیٹ محمد علی، ایڈوکیٹ مظفر علی تومر اور سوشل قائد سمیع اللہ خان کا کہنا ہے کہ آپسی پیار محبت اور مذہبی رواداری ہمارے خون میں ہے ہم سبھی مذاہب کا احترام کرتے ہیں دین اسلام کے ماننے والوں کو کسی ہندو یا پوجا کے مندر سے کوئی ناراضگی نہیں سبھی کا احترام کرنا دین اسلام کی سچّی تعلیم کا مضبوط حصہ ہے کسی کو برے نام سے پکارنا یا کسی کو پیٹھ پیچھے گالی بکنا بھی مذہب اسلام میں گناہ ہے یہی دین اسلام کی صفات کا عظیم ترین درس ہے۔ سن 1800 سے لیکر آج تک کسی مسلم شخص نے وطن عزیز میں کسی مندر پر حملہ کرنا تو دور مندر کی بے حرمتی تک نہیں کی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے سبھی بہ خوبی جانتے ہیں اسکے بعد بھی مسلم طبقہ کے افراد کے خلاف نفرت اور حسد کی وارداتیں ملک بھر میں عام ہیں! عام صاف ذہن افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر لمبے چوڑے اعلانات کے بعد 22جنوری کو بابری مسجد کی جگہ پر ’رام مندر تعمیر کا ہندوتو پر مبنی ہندو جشن‘ ہونے جارہا ہے دوسرے الفاظ میں ناانصافی اور مسلمانوں کےساتھ بڑھتی نفرت اور سوتیلے پن کا جشن ہونے جارہا ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی ہے کہ آر ایس ایس نے مسلمانوں سے اس ہندوتوا جشن میں ہندو نعروں کا ورد کرنے کےساتھ شریک ہونے کی اپیل کی ہے ہماری عقل سے باہر کی بات یہ ہے کہ ایک طرف آپ سب کے وکاس اور سبکا ساتھ کی بات کرتے ہیں دوسری جانب ملک کے بیشتر حصوں میں مسلم افراد کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے اور سرکار ان شرمناک اور دردناک واقعات کی مذمت تک نہیں کرتی۔ بسوں ریلوں اور ہندو علاقوں میں حجاب پہننے والی خواتین اور ٹوپی پہنے والے افراد کو نفرت کا شکار بنا یا جاتا ہے اور ان کو جے شری رام کانعرہ دینے کو مجبور کیا جاتا ہےیہ کیسا کلچر اور کیسا سلوک، کیا آپ ایسے حالات میں رام مندر بناکر ملک کے ہندو مسلم میں اتحاد قائم کر سکتے ہیں یا دونوں فرقوں میں تناؤ بڑھا نا چاہتے ہیں یہ نتیجہ آپ خد نکالیں ؟ ہم تو بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ملک مسلم افراد نے جان و مال کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے آزاد کرایا ہے اس ملک پر سب سے پہلا حق ہمارا ہے ہمارے صبر اور اسلامی کلچر کو ہرگز ہماری کمزوری نہی سمجھ نا چاہئیے! مسلم طبقہ کو چڑانے کے لئے ان دنوں یہ لوگ کس قدر جنون و تعصب کےساتھ مد مست ہیں کہ جمھوریت اور دستو ر ہند کےاداب اور نظم و نسق کو بھی کنارہ کردیا پورے ملک میں جے جے رام ہورہی ہے ۔سرکاری سطح پر بسیں اور ریلیں بھی فری ہونےجارہی ہیں مسلم طبقہ کے لئے صبر ،ہمت اور دانشمندانہ رخ اختیار کرنے کا پر فتن وقت ہے خدا خیرکا معاملہ فرمائے امن وامان قائم رکھے۔ آمین
ایک دوست بتاتے ہیں کہ میں ایک ہفتہ قبل دہلی سے آیا ہوں، ہماری ٹرین کے ڈبہ میں دو سادھو ہمارے ہی ساتھ سفر میں شریک ہوگئے تھے اور پورے راستے زور زور سے ہندو مذہبی رسومات ادا کررہے تھے، اور 22جنوری کا بےصبری سے انتظار کرنے کی بات کررہے تھے، اشتعال انگیزی کی بھی کوشش کی، خیر ان سبھی باریکیوں کو سامنے رکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس دوران مسلمانوں کو اپنے اپنے مقام پر اپنے اہلخانہ اور اپنی آبادیوں میں ہی رہنا چاہیے، سفر ہرگزنہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ سفر کے دوران جو حالات پیش آئیں گے اس کےبعد ان حالات سے بچنے یا نکلنے کیلئے مدد کرنے کوئی نہیں آتا ہے 22 جنوری کو سارے مسلمانوں کو اللہ کی بڑائی بیان کرنا چاہیے، اس دن ایک خانۂ خدا انتہائی ظالمانہ طورپر مشرکانہ مرکز میں تبدیل ہورہا ہے، اس دن سب مسلمانوں کو توحید کے اثبات اور شرک کی نفی کرنے والی قرآنی آیات کا ورد کرنا چاہیے، کلمہء توحید کلمہء تسبیح جو سمجھ میں آئے پڑھنا چاہیے اور کثرت سے اللہ کی تحمید و تسبیح بیان کرنا چاہیے اپنے اپنے گھروں میں موجود بچوں کو آنے والی نسلوں اور خواتین کو بابری مسجد کی تاریخ بتائیں بہت لمبی لمبی کہانیاں نہ سنائیں بلکہ چار سطروں میں انہیں بتائیں کہ، بیٹا، بیٹی، بہن بھائی! یہاں ہماری مسجد تھی، جسے مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا، اس مسجد کی جگہ پر بعض ہندو فسادیوں نے رام مندر کا دعوی کیا کہ یہاں ان کے بھگوان رام کا جنم ہوا تھا، اس جھوٹے پروپیگنڈے کو بھارت کے تمام ہندوؤں میں پھیلایا گیا اور سب نے ملکر دسمبر 1992میں یہاں موجود بابری مسجد کو توڑ دیا، اس ملک کے قانون و حکمرانوں نے ان فسادیوں کا ساتھ دیا تب کانگریس کا راج تھا، پھر 2014 میں مودی کی سرکار آئی اور 2019 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں فیصلہ سنایا جس میں یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد رام مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی لیکن اس کےباوجود اس ملک کے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو دےدی تاکہ ہندوؤں کےجذبات کو تسکین ملے، اس طرح یہ انتہائی ظالمانہ ناانصافی اس ملک میں مسلمانوں کےساتھ کی گئی ہے جس کا جشن 22جنوری کو منایا جارہا ہے تاکہ ہندو سماج بھاجپا کو آئندہ الیکشن میں ووٹ دے، ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا ہےکہ یہ جگہ مسجد کی ہے یہاں کبھی کوئی مندر نہیں تھا، یہاں جو مندر تعمیر کیا گیا اور جس کا افتتاح ہورہا ہے وہ ناانصافی کا مَظہر ہے مسجد توڑ کر بنائی گئی مندر کی تقریب میں شرکت کرےگا ہم اسے اس ملّت کا غدّار سمجھیں گے، کیونکہ اعلانیہ بابری مسجد کو توڑکر جو مندر بنایا جارہا ہے اس کے لئے ابھی تک ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا جا چکا ہے بابری مسجد کے ایشو پر مسلم طبقہ ناانصافی پر عہد کرے کہ وہ مایوس نہیں ہوگا اور نا امیدی کبھی شکار نہیں ہوگا کیونکہ مایوسی اور خوف مومن کی شان اور اسلامی عزّت کی توہین ہے، بلکہ ہر مسلمان اس ملک میں مسلمانوں کےخلاف حالات کی سنگینی کو محسوس کرکے اپنے اوپر عائد ایمانی و اسلامی ذمہ داری کو ادا کرےگا، ہم مسلمانوں میں ہر سطح پر آپسی اتحاد کی کوششیں کریں گے، اپنے آپسی جھگڑے اور اختلافات کم سے کم کریں گے، آپسی اختلافات کی وجہ سے اپنے مخالف مسلمان کو نیچا دکھانے کیلئے ہندوتوا مشرکین کا ساتھ لے کر بےغیرتی کا مظاہرہ نہیں کریں گے، اپنی مقامی مسجدوں کو نمازوں سے آباد کریں گے اپنے بچوں کو مسجدوں میں لائیں گے، مسلمان اپنے تعلیمی اداروں، اپنے تاجروں، اپنے دوکانداروں اپنے علما، ائمہ و اسکالرز کا تعاون کریں گے، اسلامی نظریات کی ترجمانی کرنے والی کتابیں خریدیں گے، ہر محلے اور ہر مسجد میں لائبریری شروع کریں گے سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے نوجوان کو انعام دیں گے، مسلمانوں کو منظم کریں گے، ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے، اپنی قوت کو مجتمع کرکے اپنے حقوق کو حاصل کریں گے، اپنی سیاسی بےوقعتی ختم کرنے کیلئے ہر قربانی دیں گے، کسی بھی حال میں اسلام و توحید کے نظریے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

Related posts

گجرات میں ہر جگہ سرکاری اسکولوں کی حالت بدحال

www.samajnews.in

بقیع قبرستان سے گنبد ومزارات کا ازالہ، صحابۂ کرام کی توہین یا فرمان نبوی کی تعمیل

www.samajnews.in

اعظم گڑھ کا محروم طبقہ (نٹ سماج) اور ہم سب

www.samajnews.in