23.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

انکساری اور عاجزی کیساتھ تواضع اختیار کرنا اللہ کے نزدیک افضل ترین عمل:مولانا محمد یعقوب بلند شہری

سہارنپور،سماج نیوز:( احمد رضا) جو زندگی آقائے نامدار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے عالم کے سامنے گزر بسر کی ویسی ہی زندگی اللہ رب العزت کو پسند ہے اسلئے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم حضور نبی رحمت ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنا کر خود کو نبی اکرم ﷺکا سچا پکّا تابع دار اور فرمانبردار ثابت کر تے ہوئے تواضع وانکساری اپنے اندر پیدا کریں عالم دین مولانا محمد یعقوب بلند شہری نے آج ایک گفتگو کے دوران ملت اسلامیہ کو خبردار کر تے ہوئے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی قادر مطلق نہیں کل کائنات کو روزی ،راحت ، عزت ،سربلندی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ اپنے حکم سے پیدا کرنے اور مارنے کی طاقت اسی کے اختیار ہے اسلئے ہم سبھی پر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسول اکرم کی پیروی لازم ہے اللہ رب العزت تکبر اور اکڑ کو پسند نہیں کر تا ہے وہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا ہے اس لئے اس دنیا ئے فانی میں عزت اور وقار کیلئے اپنی نظر اور سر کو جھکائے ہوئے چلیں لازمی طور سے تکبر و غرور سے بچتے رہیں جتنا ہوسکے اپنے آس پاس کے مستحق لوگوں کی مدد کریں ملت اسلامیہ کے ہر فرد کا خیال کر یں اپنے اداروں اور عبادت ہوں کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کفالت کا بھی دھیان رکھیں فرمان رب العزت ہے کہ جو انسان جس قدر نرم اخلاق اور متواضع ہوتا ہے اسی قدر اس کیلئے اسکی عظمت ، سر بلندی اور اس کی روزی میں برکت نصیب ہوتی ہے عمر میں بھی برکتیں میسّر ہوتی ہیں جیسا کہ صادق و مصدوق رسول رحمت ﷺ کا فرمان عالی شان ہے قال رسول الله ﷺ: ’’تواضع الله رفع الله‘‘یعنی ’’جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بلندی سے سرفراز کر دیتا ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عباس [رضی اللہ تعالیٰ عنہما] سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر آدمی جس کے سر میں حکمت ودانائی ہے،جو ایک فرشتہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے،بندہ جب تواضع وانکساری اختیار کرتا ہے تو فرشتہ کو حکم ہوتا ہے کہ اس کی حکمت و دانائی میں اضافہ کر دو،عزت بلند کردو اور جب بندہ تکبر وغرور کی راہ اختیار کرتا ہے تو فرشتہ کو حکم ہوتا ہے اس کی حکمت کو ضائع و ختم کر دو ہم سبھی اللہ رب العزت کے بندے ہیں اور ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی سب سے افضل ترین عمل اور اچھا ئی والی بات ہے ہم خاکی النسل ہیں لہٰذا خاکئ النسل [منکسرالمزاج] بن کر زندگی گذار دیں جب کہ شیطان ہمیں آتشی النسل بن کر زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے، خاک [مٹی] پاؤں کے نیچے رہے تو ہر بندہ پسند کرتا ہے۔ اگر پاؤں کے نیچے سے اڑ کر کپڑوں پر آگرے تو لوگ فوراً جھاڑ دیتے ہیں، چہرے پر آ پڑے تو بھی لوگ فوراً دھو دیتے ہیں لہٰذا خاک کو عاجزی وانکساری ہی زیبا ہے- جب تک یہ پاؤں کے نیچے رہے اس وقت تک اس کی عظمت و قدر ہے اور جب یہ نیچے سے اوپر ہونے کی کوشش کرتی ہے تو ہر بندہ اسے ناپسند کرتا ہے اور اسے مٹانے کی کوشش کرتا ہے، بالکل اسی طرح جو انسان آتشی النسل بن کر آگ کے شراروں کی طرح اونچا اٹھنا چاہتا ہے پروردگار عالم اس کا نام ونشان مٹا دیتا ہے جب کہ یہی انسان جب اپنے آپ کو خاکی سمجھتے ہوئے عجز و انکساری کو اپناتا ہے تو اللہ وحدہ لاشریک اسے بلندی عطا فرما دیتا ہے- آئیے دیکھیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تواضع وانکساری کا کیا عالم تھا؟
حضور نبی رحمت ﷺ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پیچھے صحابہ کی بھیڑ چلنا بھی پسند نہ فرماتے تھے جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ شدید گرمی کے دن بقیع کی طرف تشریف لے چلے، لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ نے پیچھے جوتوں کی آواز سنی تو اسے اپنی توقیر کا ذریعہ سمجھا اور آپ فوراً بیٹھ گئے اور حضرات صحابہ کو آگے بڑھا دیا تاکہ آپ کے دل میں تکبر کا شائبہ نہ آ جائے- حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام علیہ السلام بیماروں کی مزاج پرسی فرماتے، جنازہ میں شرکت کرتے اور غلام کی دعوت بھی قبول فرما لیتے اور ضرورت پڑنے پر دوسروں کو پیچھے بٹھا کر درازگوش کی سواری میں بھی عار محسوس نہ فرماتے، غزوہ خیبر اور غزوہ بنی قریظہ میں آپ ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس کی نکیل کھجور کی رسی کی تھی اور اس پر کھجور کی چھال سے بنی ہوئی کاٹھی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عباس [رضی اللہ تعالیٰ عنہما] فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ زمین پر بے تکلف بیٹھ جاتے اور زمین پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے اور بکریوں کو خود باندھ دیتے اور غلام کی دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے، ایک حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص حضور اقدس ﷺ سے ملاقات کے وقت مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس وقت تک نہیں کھینچتے تھے جب تک دوسرا شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے اور آپ اپنا چہرہ اس وقت تک نہیں پھیرتے تھے جب تک ملاقات کرنے والا شخص خود اپنا چہرہ نہ پھیر لے، جب آپ مسلسل مجلس میں بیٹھتے تو اپنا گھٹنا بھی دوسروں سے آگے نہیں کرتے تھے یعنی امتیازی شان سے نہیں بیٹھتے تھے عض روایات میں آتا ہے کہ شروع شروع میں جس طرح اور لوگ مجلس میں آ کر بیٹھ جاتے آپ [ﷺ] بھی ان کے ساتھ مل جل کر بیٹھ جاتے، نہ تو بیٹھنے میں کوئی امتیازی شان ہوتی تھی اور نہ ہی چلنے میں لیکن بعد میں یہ ہوا کہ جب کوئی اجنبی شخص مجلس میں آتا تو اس کو آپ کو پہچاننے میں تکلیف ہوتی، اس کو پتہ نہ چلتا کہ ان میں حضور اقدس ﷺ کون سے ہیں؟ اور بعض اوقات جب مجمع زیادہ ہوتا تو پیچھے والوں کو آپ کی زیارت کرنی مشکل ہوتی اور سب لوگوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہم حضور کی زیارت کریں، اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے حضور نبی رحمت ﷺ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ![ﷺ] آپ اپنے لیے کوئی اونچی جگہ بنوائیں اور اس پر بیٹھ کر بات کیا کریں، تاکہ آنے والوں کو پتہ بھی چل جائے اور سب لوگ آپ کی زیارت بھی کر لیا کریں، اور بات سننے میں بھی سہولت اور آسانی ہو، اس وقت آپ نے اجازت دے دی اور آپ کے لیے ایک چوکی بنا دی گئی جس پر آپ تشریف فرما کر باتیں کیا کرتے تھے- یہ سب باتیں آپ کی اعلیٰ ترین تواضع وانکساری کی نظیر تھیں کہ ہر کمال وخوبی سے متصف ہونے کے باوجود آپ کی حیات طیبہ ان تکلفات سے قطعاً خالی تھی جو نام نہاد بڑے لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو لوگ تکبر کرتے ہیں اور اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں یہ زمین انکو دھتکار دیتی ہے ظاہر ہے کہ اللہ عاجزی اور انکساری کو پسند کرتا ہے۔

Related posts

نیپال میں 2 روزہ ’’آل نیپال حفظ قرآن کریم‘‘ مسابقہ آج سے شروع

www.samajnews.in

خاتون ریزرویشن بل: نئی پارلیمنٹ میں حکومت نے عظیم جھوٹ سے اپنی اننگ شروع کی: اکھلیش یادو

www.samajnews.in

انڈین ریلوے نے دہلی ڈویژن میں براڈ گیج لائن کی برق کاری کیساتھ ایک تاریخی مقام حاصل کیا

www.samajnews.in