رائے پور: چھتیس گڑھ میں انڈین نیشنل کانگریس کے سہ روزہ 85 ویں پلینری اجلاس کے تیسرے اور آخری دن سماجی انصاف سے متعلق قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد کو کانگریس لیڈر میرا کمار نے پیش کیا، جس کی کانگریس کے اقلیتی شعبہ کے چیئرمین عمران پرتاپ گڑھی سمیت متعدد لیڈران نے تائید کی۔ عمران پرتاپ گڑھی نے اس موقع پر کانگریس کی 1885 سے لے کر 2023 کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو آئین دیا، جمہوریت دی اور اس کی حفاظت کرنا ہم کانگریسیوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی کے سپاہی اس وقت کے حاکم سے بنا ڈرے سڑک سے پارلیمنٹ تک لڑ رہے ہیں اور آگے بھی لڑتے رہیں گے۔اقلیتی شعبہ کے چیئرمین عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ وہ 1885 سے 2023 تک کے اس سفر میں انڈین نیشنل کانگریس کے 85 ویں پلینری اجلاس میں رائے پور کی سرزمین سے ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے کانگریس کے سپاہیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ اشعار پڑھے ’چراغوں کے سفر میں دبدبہ ہو آندھیوں کا، تو پھر انجام ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پر ہے، علاج اس کا محبتوں کے سوا کچھ نہیں ہوا۔‘انہوں نے کہا ’’یہ اجلاس تاریخی ہے جو اس ملک کی حالت اور سمت کو طے کرے گا۔ 1923 میں محض 35 سال کی عمر میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بننے والے مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کبھی کہا کرتے تھے کہ دنیا میں ٹھوکریں انہی کو لگتی ہے جو چلتے ہیں، جو پاؤں توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، انہیں کبھی ٹھوکر نہیں لگتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ستارے ٹوٹ گئے ہیں لیکن سورج تو چمک رہا ہے، اس سے کرن مانگ لو اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دو جہاں اجالوں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘اس موقع پر راہل گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے عمران پرتاپ گڑھی نے کہا ’’مجھے فخر ہے اور میں سلام کرتا ہوں اپنے لیڈر راہل گاندھی جی کو جنہوں نے زمانہ کو دکھا دیا کہ چاند میں ڈھلنے ستاروں میں نکلنے کے لئے، میں تو سورج ہوں بجھوں گا تو نکلے نے لئے۔ منزلوں تم ہی کچھ آگے کی طرف بڑھ جاؤ راستہ کم ہے میرے پاؤں کو چلنے کے لئے۔‘‘انہوں نے مزید کہا ’’کنیا کماری سے کشمیر تک ہندوستان کی سڑکوں پر ساڑھے تین ہزار کلومیٹر میں اپنے قدموں کی تھاپ سے راہل گاندھی نے جو محبت کی نئی عبارت لکھی ہے، اس کو کاغذ پر اتارنے کا کام کرے گا یہ اجلاس۔ جس سماجی انصاف کا خواب دیکھتے ہوئے ہمارے آبا و اجداد اس زمین کی خاک میں مل گئے، ان خوابوں کو تعبیر میں بدلنے کا کام کرے گا یہ اجلاس‘‘۔انہوں نے کہا ’’یقیناً یہ ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سرکاری قلم سے ظلم کی نئی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔ کہیں کوئی روہت ویمولا تو کہیں کوئی ناصر اور جنید کو مرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کہیں کوئی پاگل بھیڑ کھڑی ہے جو سب کچھ تہس نہس کرنے کے لئے، آئین کو نیست و نابود کرنے کے لئے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس ملک کے آئین اور قانون کی حفاظت کریں کیونکہ ہم کانگریس ہیں‘‘۔انہوں نے کہا ’’ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کہا کرتے تھے کہ ملک آئین سے چلے گا تاناشاہی سے نہیں چلے گا، ایسے میں ہم کانگریسیوں کی ذمہ داریاں ہیں اور اہم سڑک سے پارلیمنٹ تک لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ وقت کے حاکم سے بنا ڈرے ہوئے اس کی آنکھ سے آنکھ ملا کر با آواز بلند آپ کے بہنے والے لہو کے ہر قطرے کا حساب مانگتے رہیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’آخر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سب کا وکاس کا نعرے جھوٹا اور کھوکھلا ہے، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرے جھوٹا اور کھوکھلا ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو آئین دیا، جمہوریت دی اسے ہم بچائیں گے۔ اس 1885 سے 2023 کے سفر میں ڈرنا نہیں ہے۔ آگے بڑھنا ہے‘‘۔
آخر میں انہوں نے کیفی اعظمی کی یہ نظم پڑھی ’’یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی، پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے، ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر، ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے، ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے، نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے، کی یہ دیوار بلند، اور بلند، اور بلند، بام و در اور، ذرا اور سنوارے ہم نے، آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے، آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی۔ سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھوکوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی۔‘‘قبل ازیں سابق لوک سبھا اسپیکر میرا کمار نے سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سماجی انصاف ملک کی روح ہے اور کانگریس کی بھی روح ہے۔ ملک کے لئے قربانی دینے والی کانگریس پارٹی نے سب سے پہلے ذات پات کو ختم کیا اور اس کے بعد ہم ریزرویشن کے لئے لڑگے۔ کانگریس کے دور میں متعدد قوانین بنائے گئے اور تمام طبقات کے لوگوں کو انصاف فراہم کیا گیا۔ ہم کانگریس کے لوگ اس ملک کے محروم افراد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے تمام عوام کو یکجا کیا۔
previous post