کپن پر منی لانڈرنگ اور پی ایف آئی سے وابستگی کے الزامات تھے،کپن نے کہا کہ میں ان سیاہ قوانین کیخلاف لڑوں گا جن کے تحت مجھے جیل میں رکھا گیا
نئی دہلی-لکھنؤ، سماج نیوز: کیرالہ کے صحافی صدیق کپن آج 28ماہ بعد لکھنؤ جیل سے ضمانت پر باہر آگئے ۔کپن کو اترپردیش پولس نے اکتوبر 2000 میں اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ ایک دلت خاتون کے مبینہ ریپ اور موت کی رپورٹنگ کیلئے جا رہے تھے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی نے ان کی گرفتاری کی مذمت کی تھی۔ جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صدیق کپن نے لکھنؤ جیل سے باہر آنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا’میں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میری بھرپور مدد کی۔ میرے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے اور مجھے 28 ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ جیل سے باہر آکر میں خوش ہوں‘۔ صدیق کپن نے مزید کہا’میں ان سیاہ قوانین کے خلاف لڑوں گا جن کے تحت مجھے جیل میں رکھا گیا۔ حتی کہ ضمانت ملنے کے باوجود مجھے جیل میں رکھا گیا۔ نہیں معلوم کہ مجھے 28 ماہ تک جیل میں رکھنے سے کس کو فائدہ ہوا۔یہ دو برس میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے، لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں‘ ۔کانگریسی رہنما اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک ٹوئٹ کرکے صدیق کپن کی رہائی کو بھارتی آئین کی فتح قرار دیا۔صدیق کپن کو کل شام ہی جیل سے باہر آجانے کی توقع تھی لیکن ان کی رہائی اس لیے ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے ایک جج بار کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے۔سپریم کورٹ نے صدیق کپن کو گزشتہ برس ستمبر میں ہی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف باضابطہ الزامات عائد نہیں کیے گئے ہیں لہٰذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔بی جے پی کی حکومت والی اترپردیش کی پولس نے صدیق کپن پر منی لانڈرنگ اور ممنوعہ تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزامات بھی عائد کردیے۔ حالانکہ عدالت نے ان الزامات میں تین ماہ قبل ہی انہیں ضمانت دے دی تھی لیکن بیوروکریٹک پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی۔
صدیق کپن نے کہا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے پولس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف الزامات کوئی نئی بات نہیں صدیق کپن نے کہا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے پولس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ صدیق کپن ایک 20 سالہ دلت خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی ریپ اور ہلاکت کے واقعے کی رپورٹنگ کیلئے اترپردیش کے شہر ہاتھرس جارہے تھے۔ اس دلت خاتون کی ہلاکت کے واقعے کے بعد اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کے خلاف ملک بھر میں سخت ناراضی پیدا ہوگئی تھی اور انسانی حقوق نیز سماجی تنظیموں نے بھی اس کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ پولس نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ صدیق بدامنی پھیلانے کیلئے ہاتھرس جا رہے ہیں، انہیں راستے میں ہی گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد انسداددہشت گردی قانون یواے پی اے لگا دیا گیا۔اترپردیش پولس نے فروری 2022 میں ان پر منی لانڈرنگ کا کیس بھی درج کردیا۔ پولس نے الزام لگایا کہ صدیق کپن نے ممنوعہ تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا سے پیسے حاصل کیے تھے۔صدیق کپن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے پولس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف اس طرح کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے گراونڈ رپورٹنگ کرتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ہاتھرس ہی گئے تھے بلکہ انہوں نے کشمیر سمیت مختلف ریاستوں میں جاکر رپورٹنگ کی ہے۔اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی نے صدیق کپن کی گرفتاری کی سخت مذمت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسا دراصل یوگی حکومت نے اپنی منفی شبیہ پر پردہ ڈالنے کیلئے کیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرنے کے الزامات بھی لگائے تھے۔ملکی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں نے صحافی صدیق کپّن کو’بے گناہ‘ قراردیتے ہوئے فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اترپردیش حکومت نے ان پر ملک سے غداری اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قوانین کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔ یہ گرفتاری ایسے وقت ہوئی ہے جب اترپردیش کے ہاتھرس، بلرام پور، علی گڑھ اور دیگر جنسی زیادتی کے واقعات کے بعد اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کو مختلف حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوگی حکومت نے اسے ‘بین الاقوامی سازش‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس مہم سے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک کی طرح ہی نمٹا جائے گا۔
صحافتی تنظیموں نے صدیق کپن کی گرفتار ی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ ریاست میں امن و قانون کو برقرار رکھنے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے اس طرح کی حرکت کر رہے ہیں۔دہلی یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات کرتے ہوئے کہا ’’صدیق کپّن کی گرفتاری اس امر کا اشارہ ہے کہ اترپردیش کی یوگی حکومت میڈیا کو اپنا کام کرنے سے روکنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ وہ اصل حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے روکنے کیلئے کوئی بھی حربہ اپنا سکتی ہے۔‘‘ایس کے پانڈے نے مزید بتایا کہ ایک ٹوئٹ کرنے کی وجہ سے صحافی پرشانت کنوجیا کو اترپردیش پولس نے 18 اگست کودہلی سے گرفتار کیا تھا، جو اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ہم مشتبہ بنیادوں پر صحافیوں کو گرفتار کرنے کے اس رجحان کی سخت مذمت کرتے ہیں‘‘۔پانڈے کا کہنا تھا کہ صدیق کپّن ایک پروفیشنل جرنلسٹ ہیں۔ وہ مختلف ملیالی میڈیا کیلئے کام کرچکے ہیں ا ور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے ہاتھرس جارہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ہم انہیں فوراً رہا کرنے کی اپیل کرتے ہیں‘‘۔صحافیوں کی موقر تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی صدیق کپّن کی گرفتاری کی مذمت کی تھی ۔صحافیوں کے مفادات کا خیال رکھنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے ملیالی صحافی کو فوراً رہا کرنے اور اس کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا، انڈین وومن پریس کور اور دیگر صحافی تنظیموں نے بھی یوگی حکومت کے اس اقدام کو میڈیا کو’خاموش‘ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ انہوں نے اترپردیش پولس کے اس دعوے کو بھی بے بنیاد بتایا کہ صدیق کپّن کا تعلق پیپلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نامی تنظیم سے ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولس اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی ہے۔خیال رہے کہ پی ایف آئی کیرالہ سے سرگرم ایک سماجی اور سیاسی تنظیم ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ممنوعہ تنظیم نہیں ہے تاہم یوگی حکومت اور بی جے پی اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔دریں اثنا کیرالہ ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے صدیق کپّن کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔پولس کا دعوی ہے کہ گرفتار صحافی اور دیگر تین افراد کے پاس سے موبائل فون اور لیپ ٹاپ ملے ہیں۔ جن میں مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد تھے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدیق کپّن کی گرفتاری بھارت میں صحافیوں کو درپیش مسائل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ گزشتہ چھ برسوں کے دوران صحافیوں کیلئے بے خوفی اور ایمانداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔پیرس سے کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے مطابق بھارت میں صحافتی آزادی کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ ادارے کی طرف سے 2020 میں دنیا بھر میں صحافت کی صورت حال پر شائع رپورٹ میں بھارت 142ویں مقام پر ہے۔ صحافتی آزادی کے لحاظ سے بھارت کی حالت اس کے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے بھی بدتر ہے۔