’ہمارے ملک کی حقیقت قیامت جیسی‘، عبدالحاکم ادریس نے سنائی ایغور مسلموں پر چین کی زیادتی
’’عبدالحاکم ادریس نے دعویٰ کیا کہ چین میں تقریباً 30 لاکھ ایغور مسلموں کو کانسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا ہے، ایغوروں سے وہاں غلاموں کی طرح کام کروایا جاتا ہے‘‘
نئی دہلی: ایغور مسلموں پر چین کے مظالم کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ یو این کی رپورٹ تک میں ایغوروں کے خلاف چینی حکومت کے غلط سلوک کا تذکرہ کھل کر کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف بے رحمانہ رویہ میں کسی طرح کی کمی محسوس نہیں کی جا رہی۔ چین کے خلاف ایغور مسلمانوں کا احتجاجی مظاہرہ بھی لگاتار جاری ہے، لیکن ان مظاہروں اور سیاسی بیانات کا کوئی اثر چینی حکومت پر دکھائی نہیں دے رہا۔ اس درمیان ایغور مسلم عبدالحاکم ادریسی نے چینی مظالم سے متعلق کچھ ایسی باتیں سب کے سامنے رکھی ہیں جو دردناک اور ہولناک ہیں۔
دراصل عبدالحاکم ادریس 1968 میں چین میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین، بھائی اور بہن کو چینی حکومت نے ’کانسنٹریشن کیمپ‘ میں قید کر دیا تھا۔ اس ماحول اور ایغوروں کے قتل عام پر عبدالحاکم ادریس نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ وہ ابھی سنٹر فار ایغور اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ سنٹر فار ایغور اسٹڈیز واشنگٹن کا تھنک ٹینک ہے اور عبدالحاکم ادریس کو دنیا بھر میں ایغور مسلمانوں کی آواز کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ’اے بی پی‘ سے خصوصی انٹرویو کے دوران کچھ اہم باتیں سامنے رکھیں جو آنکھیں کھولنے والیں اور چینی مظالم کو ظاہر کرنے والی ہیں۔
خصوصی انٹرویو کے دوران عبدالحاکم ادریس نے عویٰ کیا کہ چین میں تقریباً 30 لاکھ ایغور مسلموں کو کانسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ ایغوروں سے وہاں غلاموں کی طرح کام کروایا جاتا ہے اور اپنی جان بچانے کے لیے لاکھوں ایغور مسلمان بڑی مشکل سے چین چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عبدالحاکم کا کہنا ہے کہ ’’میرے والدین، بھائی، بہنیں سبھی کو کانسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا۔ میرے بھائی کو چینی حکومت نے 20 سال کی سزا سنائی ہے۔ میری بہنوں کو ان کے بچوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔‘‘ عبدالحاکم آگے کہتے ہیں کہ ’’میں تنہا نہیں ہوں، لاکھوں متاثر ایغور دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ کر بھاگا ہے تو کوئی اپنے بچوں کو چھوڑ کر بھاگا ہے۔‘‘
اس وقت عبدالحاکم ادریس ہندوستان کے دورے پر ہیں۔ ان کا یہ پہلا دورۂ ہند ہے۔ وہ چین میں ایغور مسلمانوں کی حالت دورِ قیامت جیسی بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے ملک کی حقیقت قیامت جیسی ہے۔ بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا ہے۔ ان بچوں کو یتیم خانہ میں رکھا گیا ہے جہاں انھیں چینی ثقافت کو اپنانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایغور عورتوں کو ہان چینی شہریوں کے ساتھ شادی کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ کانسنٹریشن کیمپ میں اپنے لوگوں سے بات کرنا بہت مشکل ہے۔ چینی حکومت نے ایک طرح سے ڈیجیٹل دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ چین ہمارے لوگوں کو ختم کر کے ہان طبقہ کو بسانا چاہتا ہے۔‘‘
عبدالحاکم ادریس نے کچھ ایسی باتیں بھی بتائیں جو انسانیت کو شرمندہ کرتی ہوئی معلوم پڑتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہماری عورتوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے۔ ہمارے لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ لوگوں کو اچانک غائب کر دیا جاتا ہے۔ ایغوروں کو صرف مارا ہی نہیں جا رہا ہے بلکہ ان کی شناخت کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔‘‘ وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہمیں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی تعریف کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ ایغوروں کو چین کے صدر شی جنپنگ کو بھگوان کی طرح پوجنا پڑتا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ انھوں نے ہمیں سانس لینے اور جینے کی آزادی دی ہے۔ جب میری بیوی نے میرے والدین کا معاملہ اٹھایا تو چینی حکومت نے میری بیوی کی بہن کو قیدی بنا لیا۔‘‘