نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو مسلمانوں میں تعدد ازدواج اور ‘نکاح حلالہ کے دستوری جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے لئے ایک آئینی بنچ کی تشکیل نو پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ جسٹس اندرا بنرجی، ہیمنت گپتا، سوریہ کانت، ایم سندریش اور سدھانشو دھولیا کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 30 اگست کو عرضیوں کے سلسلہ میں نوٹس جاری کیا تھا۔ تاہم دو جج جسٹس بنرجی اور جسٹس گپتا اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔عرضی گزاروں میں سے ایک ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے نے جمعرات کو چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی اور جسٹس ہیما کوہلی اور جے بی پاردی والا پر مشتمل بنچ کے سامنے اس معاملے کا ذکر کیا۔ جس پر بنچ نے کہا کہ اس معاملہ پر ایک نئی بنچ تشکیل دی جائے گی۔ خیال رہے کہ کثرت ازدواج اور ‘نکاح حلالہ کے دستوری جواز کو چیلنج کرنے والی کل 9 عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔عدالت عظمیٰ نے اگست میں مرکز، قومی کمیشن برائے خواتین، قومی کمیشن برائے اقلیتی، کمیشن برائے قانون وغیرہ کو نوٹس جاری کیے تھے اور اسے دسہرہ کی تعطیلات کے بعد اس معاملے کی سماعت کے لیے فہرست بند کیا تھا۔ اپادھیائے کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق (طلاق البدعت)، تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کا رواج آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی ہے۔عرضی میں مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کے سیکشن 2 کو غیر آئینی اور آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی قرار دینے کی ہدایت کی درخواست کی گئی ہے، کیونکہ یہ تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کو تسلیم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ طے ہے کہ پرسنل لاء پر کامن لاء کی بالادستی ہے لہذا، یہ عدالت یہ اعلان کر سکتی ہے کہ دفعہ ’498 اے‘ آئی پی سی کے تحت طلاق البدعت ظلم ہے، نکاح حلالہ دفعہ 375 آئی پی سی کے تحت عصمت دری ہے اور تعدد ازدواج دفعہ 494 آئی پی سی کے تحت جرم ہے۔عدالت عظمیٰ نے اگست 2017 میں تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا اور اسے 3:2 کی اکثریت سے کالعدم قرار کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے 2017 کے فیصلے میں طلاق البدعت کو ختم کرتے ہوئے تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔